بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رب العزت کا احسان عظیم ہے کہ اس نے حضرت انسان کو اپنے دست اقدس سے تخلیق فرمایا اور اسے ان تمام علوم سے بہرہ مند کیا جو اس کائنات میں اس کے ضروری تھے۔ اور پھر اس زمیں پر اپنا نائب مقرر کیا۔
حضرت انسان کی تخلیق کوئی معمولی کام نہیں تھابلکہ اس کی وجہ سے ابلیس کی تمام تر ریاضت ومحنت پر پانی پھر گیا۔
جس کی وجہ ابلیس روز اول سے انسان کا دشمن ٹہرا۔ شیطان نے اللہ کے سامنے دعوٰی کیا کہ وہ آخری سانسوں تک انسان کو گمراہ کرے گا لیکن میرے شان کریمی والے رب نے فرما دیا کہ جو بھی میری طرف لوٹ کر آئے گا اسے معاف کردوں گا۔ اب تخلیق آدم سے لے کر قیامت کی دیواروں تک یہ کشمکش لگی ہی رہنی ہے۔
اب تک انسان اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باعث نقصان اٹھاتا چلا آیا اس میں جسمانی و روحانی دونوں طرح کے نقصانات شامل ہیں۔ جسمانی نقصانات میں اس کے طبعی اعمال کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے جب کہ روحانی نقصانات میں انسان کی اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطان اپنے اثرات بھی ڈال دیتا ہے جس سے اس تکلیف ظاہری علاج معالجہ کے باوجود بڑھتی چلی جاتی ہے
اللہ اکبر! کیا کیا احسان ہیں اس شان کریمی کے
دیکھیے جنت کا منظر ہے جناب آدم علیہ السلام اور حوا علیھا السلام اللہ کی مہمانی کے مزے لے رہے ہیں کہ دشمن ازلی سے برداشت نہ ہو پایا۔ اس نے دوستی اور خیر خواہی کا ڈھونگ رچا کر دونوں کو پھسلانا چاہا۔ جناب حوا علیھا السلام اس کے خیر خواہی کے جذبہ سے متاثر ہوئیں اور اس نابکار کے کہنے میں آ کر دونوں جناب آدم علیہ السلام اور حوا علیھا السلام نے منع کردہ درخت کا پھل کھا لیا اور جنت سے نکال دیے گئے۔
یوں پہلا حملہ کامیاب ہوا لیکن اللہ اکبر کیا کیا احسان ہیں اس شان کریمی کے کہ اس نے اس کا ازالہ بھی بتا دیا اور معافی کے لیے ایک طریقہ کار کا تعیین کر کے آنے والی نسلوں کے لیے آسانی فرمادی۔
عرصہ تک گریہ وزاری کرنے کے بعدمعافی قبول ہوئی اور پھر مشیت الٰہیہ سے نسل انسانی کا آغاز ہوا
ازالہ و علاج از عطائے ربانی برائے معافی
" ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفر لنا وترحمنا لنکونن من الخٰسرین"
اور اس طرح جو روحانی بیماری پیدا ہوئی اس کا روحانی علاج بھی مرحمت ہوا۔
اللہ اکبر کیا کیا احسان ہیں اس شان کریمی کے کہ خود ہی راہنمائی فرماتے ہیں۔
اللہ اکبر
اللہ نے انسان کی راہنمائی کے لیے ایسے ذرائع اور وسائل استعمال فرمائے جن سے انسان واقف اور آشنا تھا۔ جس کی مثال ہابیل اورقابیل کے واقعہ ہے۔ کہ کس طرح قابیل نے بھائی کو مار ڈالا اور پھر اس کی لاش چھپانے کا کوئی ذریعہ سمجھ نہ آیا تو اللہ نے کوے کے ذریعہ سے اسے زمین کھود کر اس میں مردہ دفن کرنا سکھایا۔ اس طرح قبر کھودنے اور مردہ کو دفن کرنے کا علم انسان نے ایک کوے سے سیکھا۔
اس سے دو باتیں سمجھ آتی ہیں
1۔ کہ انسان بغیر راہنمائی کے کچھ نہیں کرسکتا
2۔ علم سیکھنا چاہیے ظاہری طور پر وہ کسی کمتر سے کیوں نہ ہو
اسی طرح روحانیت بھی کسی فردواحد کی اجارہ داری نہیں اور نہ ہی یہ کسی خاص قوم، نسل یا قبیلے سے متعلق ہے
بلکہ اللہ رب العزت کی مہربانی ،عطا اور نبی علیہ الصلوةوالسلام کی پیروی سے جس پر فضل ہو جائے وہ اس راہ پر قائم رہتا ہے۔
یاد رہے کہ اس راستے میں بھی استاد کی ضرورت لازم ہے اور بغیر استاد کامل کے گمراہی کا اندیشہ ہے۔
استاد کامل کے لیے صرف عالم ہی نہیں بلکہ علوم دینی و دنیاوی پر عمل کے ساتھ ساتھ تجربہ کار ، ماہر امراض روحانیہ ، تشخیص کی مہارت رکھنا اور علاج معالجہ کی قابلیت ہونا ضروری ہے۔
جب سے اللہ رب العزت نے انسان کو اس زمین پر اتارا ہے اورحضرت انسان نے اس کائنات کو زینت بخشی ہے اسے روز بروز نت نئی تکالیف، مشقتوں اور بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ ان تکالیف، مشقتوں اور بیماریوں سے نپٹنے کے لیے انسان مالک کی عطا کردہ عقل اور اس زمانے میں موجود وسائل کا بھرپور استعمال کرتا رہا ہے۔ یہ تکالیف، مشقتیں اور بیماریاںحضرت انسان کو نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی طور پر متاءثر کرتی رہی ہیں۔
روح کی پیدائش اللہ کے حکم سے ہے اوریہ عام نگاہ سے مخفی بھی ہے اوراس کی بیماریاں بھی عام نگاہ سے پوشیدہ ہیں اس لیے اس کا علاج کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے اپنے خصوصی نمائندے بھیجے جو روح کی گہرائیوں تک جھانک لیتے اور اس کی پوشیدہ امراض کو سمجھ کر ان کا علاج فرماتے تھے۔
جبکہ جسم ظاہری ہے اور اس کو لگنے والی بیماریاں بھی ظاہری ہیں اور ان بیماریوں کی وجہ زیادہ تر انسان کی اپنی حرکات ہوتی ہیں اس لیے ان بیماریوں کو سمجھنے کے لیے اللہ نے انسان کو اتنی سمجھ بوجھ عطا فرمادی کہ وہ خود ان کا علاج کر سکے۔
اب چونکہ انسان کی تکمیل جسم اور روح کے ملاپ اور ان دونوں کی تندرستی پر منحصر ہے لہذا یہ اللہ رب العزت کا احسان عظیم ہے کہ آج کے دور میں اس نے ہمیں وہ تمام تر ذرائع و وسائل عطا فرما دیے ہیں کہ جن کی مدد سے ہم اپنی روح اور جسم دونوں کو تند رست رکھتے ہو ئے بھرپور زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
اب اللہ کی طرف سے براہ راست راہنمائی کا سلسلہ ظاہری طور پر منقطع نظر آتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج بھی اس کا کلام اور نبی آخرالزمان جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہمہ قسم کے علاج معالجہ(چاہے روح ہو یا جسم) میں اسی طرح ہماری راہنمائی کرتے ہیں جیسا کہ پہلے وقتوں میں۔اور پھر روحانی وجسمانی دونوں شعبوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نائبین موجودہیں جو کہ اپنے اپنے شعبہ کے ماہراستاد ہیں۔
جسم ظاہری شکل وصورت کا نام ہے۔ اور اس کی زیادہ تر ضرورتیں ظاہری اسباب سے پوری ہوتی ہیں۔ جیسا کہ بھوک، پیاس، شہوت وغیرہ یہ سب جسم کی ضرورتیں شمار کی جاتی ہیں اور بھوک کھانے سے، پیاس پینے اور شہوت اسکے دستیاب ذرائع سے پوری ہوتی ہے۔ اور جب بھوک ، پیاس اور شہوت پوری کرنے کے ذرائع دستیاب ہوں یا پھر بالکل نہ ہوں دونوں صورتوں میں انسان انسانیت کے جامے سے نکل جاتا ہے۔ ذرائع دستیاب ہونے کی صورت میں مہذب انداز میں درنگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور ذرائع دستیاب نہ ہونے کی صورت میں اپنی قوت اور طاقت کے حساب سے جانوروں کی خصلت اختیار کر لیتا ہے۔
انسان کا ظاہر اس کے باطن کا ترجمان ہوتا ہے۔ در حقیقت اگر روح سیر ہو اور اطاعت ربانی میں رچی بسی ہو تو اسکا ظاہر یعنی جسم روح کے تابع ہوجاتا ہے اور اس سے اعمال صالحہ ہی سر زد ہوتے ہیں اورظاہری بھوک ،پیاس اور شہوت اس پرغلبہ نہیں پاسکتے اور جب روح کمزور اوراطاعت ربانی سے دور ہوتی ہے تو اس پر یہ ظاہری احوال غلبہ پالیتے ہیں اورانسان اعمال صالحہ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور اس سے اعمال سیئہ سرزد ہونے لگتے ہیں۔
روح امر ربی ہے جس کی وجہ یہ کائنات رواں دواں ہے اور یہ انسان کے باطن کا نام ہے۔ چونکہ یہ ایک پوشیدہ نظام ہے اس کی خوراک اور ذرائع حیات بھی پوشیدہ اور مخفی ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ اللہ نے انسان کی تربیت کے اپنے خاص بندے مبعوث فرمائے جو کہ روح کی گہرائیوں تک جھانک کر انسان کی پوشیدہ روحانی بیماریوں سے آگاہ ہوجاتے تھے انہی انفاس قدسیہ کے ذریعہ سے اللہ رب العزت نے روح کی خوراک اور اس کی صفائی کے طریقے ہمیں عطا فرمائے ہیں۔ روح کی پاکیزگی اور صفائی کے سب سے زیا دہ زور رزق حلال اور صد ق مقال یعنی سچ بولنے پر دیا گیا ہے۔ اور اس کی غذا اللہ کا ذکر قرار دیا گیاہے۔
ظاہری طور پر جسم اور روح کی ضرورتیں جدا گانہ ہیں لیکن اگر بغور مطالعہ و مشاہدہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جسم کی خوراک جتنی پاکیزہ،صاف ستھری اور حلال ہو گی روح کو اتنی ہی جلا ملے گی اور اسی طرح روح جتنی پاکیزہ اور رب کے خوف اور محبت کی خوگر ہو گی اتنی پاکیزہ اورحلال خوراک کی جستجو کرے گی۔
لہذا دونوں کی ضرورتوں کا انحصار ایک دوسرے پر ہے ایک ٹھیک ہے دوسرا بھی سیدھا ہوگا اور اگر ایک میں کجی آ گئی تو دوسرا اس سے متاءثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ اسی لیے اللہ والے روحانی بیماریوں سے بچنے کے پہلے ظاہری یعنی جسمانی بیماریوں یعنی بھوک، پیاس اور شہوت سے بچنے پر زور دیتے ہیں۔ جیسا کہ کم بولنا، کم کھانا اور کم سونا صوفی ازم کا ایک لازمی سبق ہے۔
جب اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو جبرائیل سے کہا کہ جاﺅ زمین سے مٹی لے آﺅ پھر اسی مٹی کو گوندھ حضرت آدم علیہ السلام کا جسد خاکی تیار کیا گیا اور اس کے بعد اللہ رب العزت نے اپنے امر سے اس جسد خاکی میںروح پھونکی اور یوں اس انسان کی بنا رکھی گئی۔
چونکہ آدم کی تخلیق مٹی سے کی گئی اس لیے اس کی غذاوہ اشیاء قرار پائیں جو زمیں سے نکلتی ہیں۔ اناج ، غلہ، سبزیاں اور پھل سب کچھ زمین ہی میں پیدا ہوتا ہے ان سب کو انسان کے جسم کی غذا قرار دیا گیا۔ زمین سے ہی آدم کا جسم بنا یا گیا اور زمیں ہی سے اس کے جسم کی خوراک کا انتطام فرمایا گیا۔
رو ح جو کہ امر ربی ہے اور اس کی تخلیق اللہ کے براہ راست حکم سے ہوئی لہذا اس کی خوراک وہ اشیاء مقرر کی گئیں جن کا تعلق براہ راست اللہ رب العزت سے ہے۔ یعنی اللہ کی یاد اور اس کا ذکر۔
گویا کہ جسم کا تعلق زمین سے ہے اور اس کی غذاکا تعلق بھی زمیں ہی سے ہے اسی طرح روح کا تعلق اللہ سے اور کی غذا کی فراہمی بھی اللہ سے یعنی اس کے ذکر سے ہے۔
اب انسان کے ذمہ لگا دیا گیا کہ ان دونوں کی خوراک مہیا کرے اور ان نگہداشت درست طریقہ سے کرے۔ لیکن وائے کم قسمتی کی انسان ظاہر کے پیچھے لگ گیا اور باطن کو بھلا بیٹھا۔ جسم کی غذا مہیا کرنا تو اپنا فرض جان لیا لیکن روح کی غذا کی فراہمی سے غافل ہو گیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ جسم روز بروز طاقت ور ہوتا چلا گیا اور روح کمزور تر ہوتی چلی گئی جس کی وجہ سے انسان اپنے رب سے دور ہو گیا۔
جسم کی غذا کی فراہمی کے لیے ضروری ہے ایسے ذرائع اختیار کیے جائیں جن سے رزق کے ساتہ ساتھ اپنے رب کی رضا بھی حاصل ہو اور وہ غذا روح کی تقویت کا باعث بھی بنے۔
اللہ ہمیں جسم کے لیے حلال غذا کی فراہمی کے ساتھ ساتھ روح کی غذا مہیا کرنے اور اسے طاقت ور بنانے کی تو فیق عطا فرمائے۔
جیساکہ ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کے جسم کو مٹی سے تخلیق کیا گیا اور اسکی غذا بھی وہی اشیا قرار پائیں جو کہ زمین سے نکلتی ہیں۔
لیکن اس غذا کے حصول کے لیے بھی قواعد وضوابط مقرر کردیے گئے جو کہ معروف ہیں یعنی جائز طریقے سے غذا کا حصول۔ اگرانسان اپنی غذا کے حصول کے لیے جائز اور درست ذرائع اختیارکرتا ہے تو اسےاس دنیا میں بھی اور اللہ کے ہاں بھی اچھا نیک اور بہتر انسان مانا جاتا ہے اس کے بر عکس اگر خوراک کے حصول کے ذرائع غلط اور نا پسندیدہ ہوں تو ایسے شخص کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا اوریہ ایک عام فہم اور صاف بات ہے۔
اگر انسان جائز اور درست ذرائع سے رزق حاصل کرتا ہے تو اسکے جسم اور روح دونوں پراس رزق کی بدولت مثبت اثرات پڑتے ہیں اور روح روز بروز طاقت ور ہوتی چلی جاتی ہے۔اور ایسے انسان کے اخلاق و اطواردن بدن اچھے ہوتے چلے جاتے ہیں کیونکہ اس کا مقصد حیات اپنے رب کوراضی کرنا اور اس کی مخلوق کے آسانیاں پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ایسا انسان مخلوق اور خالق دونوں ک کے ہاں پسندیدہ ٹہرتا ہے کیونکہ جائز طریقے سے رزق حاصل کرنے میں وہ خالق کو بھی راضی رکھتا ہے اورمخلوق کے حقوق کی پامالی سے بھی بچتا ھے۔
اس کے برعکس ایسا انسان جس کے حصول رزق کے ذرائع ناپسندیدہ اور ناجائز ہوں تو ایسا انسان خالق اور مخلوق دونوں کی نظر میں گر جاتا ہے کیونکہ ایسا انسان رزق کے حصول میں نہ صرف خالق کے بنائے ہوئے اصول وضوابط کو توڑتا ہے بلکہ مخلوق کے حقوق کو بھی پامال کرتا ہے اور پھر دونوں کی نظر میں ناپسندیدہ ٹہرتا
ہے اور وہ اس بات سے بھی بے پرواہ ہوتا ہے کہ اس کا رزق اس کے لیے اس جہان میں پریشانی اور آنے والے جہان میں پشیمانی کا باعث بنے گا۔
ایسے رزق سے جسم کے ساتھ ساتھ روح پر بھی بد اثرات پڑتے ہیں اورانسان کے اخلاق واطوار نہ صرف یہ کہ بگڑ جاتے ہیں بلکہ دوسروں کے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اور ایسا انسان صرف دولت اور رزق کے حصول ہی کو اپنا مطمح نظر بنا لیتا ہے۔ اس کے ہاں انسانی جذبات اور معاشرتی قدروں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔
جب غذا بری اور ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی ہو تو اس بہتری کی امید رکھنا فضول ہے اسی کے کے لیے مثل مشہور ہے" کانٹے بیج کر اچھی فصل کی امید رکھنا"
جب بھی ہم غذا کے حصول کے لیےکوشاں ہوتے ہیں تو ہماری کوشش ہوتی ہے ہمیں بہترین ، اچھی اور اعلٰی غذا میسر آئے اوراگرہماری توجہ اپنی روح کی صحت کی جانب بھی ہو تو اس کے ساتھ ساتھ ہم غذا کی پاکیزگی اور حلال ہونے کی جستجو بھی کرتےہیں۔
اچھی صاف ستھری پاکیزہ اور حلال غذا نہ صرف ہمارے بدن کو طاقت دیتی ہے بلکہ اسے تندرست وتوانا رکھنے کے ساتھ ساتھ روح کی قوت اور طاقت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ حلال اور پاکیزہ غذا گر چہ کم ہی کیوں نہ ہو اس سے انسان کو صحت کے ساتھ قلبی وذہنی سکون بھی میسرآتا ہے اور عبادات میں بھی مزا آتا ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں اسلام کی تاریخ میں نمایاں طور پہ ملتی ہیں۔
اچھی اور پاکیزہ غذانہ صرف بدن کو قوت دیتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے انسان جملہ جسمانی و روحانی امراض سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ اور اس کےبدن اور روح کے اعمال وافعال درست طریقہ سے سرانجام پاتے ہیں۔
اچھی اورپاکیزہ خوراک کے حصول کے چونکہ انسان کو بذات خود کوشش کرنا پڑتی ہے اس طرح اس کا جسم اورذہن لازمی طور پر متحرک رہتے ہیںجس کی وجہ وہ جسمانی اور ذہنی بیماریوں سے دور رہتاہے۔
مثل مشہور ہے "رزق حلال کا حصول عین عبادت ہے"
گویا جس وقت بندہ رزق حلال کی جستجو کر رہا ہوتا ہے در حقیقت وہ اپنے رب کی رضا کے حصول میں لگا ہوتا ہے۔
اسی طرح جب بندہ بے سوچے سمجھے ہر طرح کا مال بغیر حلال وحرام کی تمیز کے اکھٹا کرنے میں لگا ہوتا ہے تو اس کے پیش نظر سوائے مال اکٹھا کرنے کے کچھ اور نہیں ہوتا اور اس دوران بعض اوقت تووہ اخلاقیات اور معاشرتی قدروں کو بھی پس پشت ڈال دیتا ہے۔ ایسے رزق کا حصول اسے ہمہ قسم کی جسمانی وروحانی بیماریوں میں ملوث کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ اور انسان یہ راستہ چونکہ خود اپنی مرضی سے اختیار کرتا ہے لہذا اس کاعلاج اسے خود ہی ڈھونڈنا پڑتا ہے۔
رزق حلال کی جستجو(جس میں اللہ کی رضا کا حصول بھی مقصود ہو) انسان کو اپنے رب کے قریب کردیتی ہے اور وہ اس کی برکت سے جسمانی وروحانی امراض سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس کے بالکل برعکس حرام اور ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ غذا نہ صرف انسان کو اپنے رب سے دور کرتی ہے بلکہ اسے مختلف جسمانی و روحانی امراض کا شکار بنادیتی ہے۔
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اگر ہماری روز مرہ کی غذا جو ہم اپنے زندہ رہنے اور جسم کی تقویت کے لیےاستعمال کرتے ہیں پاکیزہ اور حلال ہوگی تو جسم کے ساتھ ساتھ روح کو بھی قوت میسر آئے گی۔ اگر ہماری جسمانی غذا حلال اور پاکیزہ ہوگی تو ہماری روحانی غذا اپنا بھرپور اثر دکھائے گی۔ اس کی مثال حضرت سلطان باہو رح کے اس شعر میں موجود ہے
" کوڑے کوہ مٹھے نہ ہوندے بھانویں سے من کھنڈاں پائیےہ ±و"
یعنی اگر پانی کا قدرتی ذائقہ ہی کڑوا ہے تو جتنی مرضی میٹھا ڈال لیں اس کی کڑواہٹ ختم نہیں ہو سکتی۔ گویا روحانی غذا اسی وقت اپنا اثر دخھائے گی جب جسمانی غذا سے جسم حلال اور پاکیزہ طریقے سے نشوونما پا چکا ہو گا۔
روحانی غذا اللہ رب العزت کا ذکر ہے اس کے فوائد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے اپنے جسم اور دل کو کو اس قدر پاکیزہ کرلیا جائے کہ وہ روحانی غذا سے
مرتب ہونے والے اثرات کا متحمل ہو سکے۔ اور ان انوارات کو جذب کر سکے جو اللہ رب العزت کا ذکر کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔اس کی مثال برتن سے بھی دی جاتی ہے جو کہ گندگی سے اٹا پڑا ہو اور روحانی غذا کی مثال دودھ کی ہے اب کون عقلمند اس گندگی سے بھرے برتن میں دودھ ڈالے گا۔
جب جسم اور روح پاکیزہ اور صاف ہو نگے تو اس پر اللہ کی خصوصی رحمتوں اور برکات کا نزول ہو گا۔ اور انسان کی دنیا کے ساتھ ساتھ اسکی آخرت بھی سنورجائے گی۔ابتدا تو مشکلات سے بھرپور ہے لیکن اللہ کریم کی مہربانی سے استقلال اور جوانمردی سے اس راہ پر ڈٹے رہنے سے انسان اس کے اثرات خود بھی محسوس کرتاہے اور کبھی کبھی دوسرے بھی محسوس کرلیتے ہیں۔
اللہ رب العزت ہمیں اپنے برتن صاف رکھنے کی توفیق عنایت فرمائیں اور جائز وحلال غذا وافر مقدار میں عطا فرمائیں۔آمین۔
(جاری ہے)