11/22/2016

نفس اور روح

0 تبصرے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رب العزت کا احسان عظیم ہے کہ اس نے حضرت انسان کو اپنے دست اقدس سے تخلیق فرمایا اور اسے ان تمام علوم سے بہرہ مند کیا جو اس کائنات میں اس کے ضروری تھے۔ اور پھر اس زمیں پر اپنا نائب مقرر کیا۔
حضرت انسان کی تخلیق کوئی معمولی کام نہیں تھابلکہ اس کی وجہ سے ابلیس کی تمام تر ریاضت ومحنت پر پانی پھر گیا۔
جس کی وجہ ابلیس روز اول سے انسان کا دشمن ٹہرا۔ شیطان نے اللہ کے سامنے دعوٰی کیا کہ وہ آخری سانسوں تک انسان کو گمراہ کرے گا لیکن میرے شان کریمی والے رب نے فرما دیا کہ جو بھی میری طرف لوٹ کر آئے گا اسے معاف کردوں گا۔ اب تخلیق آدم سے لے کر قیامت کی دیواروں تک یہ کشمکش لگی ہی رہنی ہے۔
اب تک انسان اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باعث نقصان اٹھاتا چلا آیا اس میں جسمانی و روحانی دونوں طرح کے نقصانات شامل ہیں۔ جسمانی نقصانات میں اس کے طبعی اعمال کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے جب کہ روحانی نقصانات میں انسان کی اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطان اپنے اثرات بھی ڈال دیتا ہے جس سے اس تکلیف ظاہری علاج معالجہ کے باوجود بڑھتی چلی جاتی ہے
اللہ اکبر! کیا کیا احسان ہیں اس شان کریمی کے
دیکھیے جنت کا منظر ہے جناب آدم علیہ السلام اور حوا علیھا السلام اللہ کی مہمانی کے مزے لے رہے ہیں کہ دشمن ازلی سے برداشت نہ ہو پایا۔ اس نے دوستی اور خیر خواہی کا ڈھونگ رچا کر دونوں کو پھسلانا چاہا۔ جناب حوا علیھا السلام اس کے خیر خواہی کے جذبہ سے متاثر ہوئیں اور اس نابکار کے کہنے میں آ کر دونوں جناب آدم علیہ السلام اور حوا علیھا السلام نے منع کردہ درخت کا پھل کھا لیا اور جنت سے نکال دیے گئے۔
یوں پہلا حملہ کامیاب ہوا لیکن اللہ اکبر کیا کیا احسان ہیں اس شان کریمی کے کہ اس نے اس کا ازالہ بھی بتا دیا اور معافی کے لیے ایک طریقہ کار کا تعیین کر کے آنے والی نسلوں کے لیے آسانی فرمادی۔
عرصہ تک گریہ وزاری کرنے کے بعدمعافی قبول ہوئی اور پھر مشیت الٰہیہ سے نسل انسانی کا آغاز ہوا
ازالہ و علاج از عطائے ربانی برائے معافی
" ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفر لنا وترحمنا لنکونن من الخٰسرین"
اور اس طرح جو روحانی بیماری پیدا ہوئی اس کا روحانی علاج بھی مرحمت ہوا۔
اللہ اکبر کیا کیا احسان ہیں اس شان کریمی کے کہ خود ہی راہنمائی فرماتے ہیں۔
اللہ اکبر
اللہ نے انسان کی راہنمائی کے لیے ایسے ذرائع اور وسائل استعمال فرمائے جن سے انسان واقف اور آشنا تھا۔ جس کی مثال ہابیل اورقابیل کے واقعہ ہے۔ کہ کس طرح قابیل نے بھائی کو مار ڈالا اور پھر اس کی لاش چھپانے کا کوئی ذریعہ سمجھ نہ آیا تو اللہ نے کوے کے ذریعہ سے اسے زمین کھود کر اس میں مردہ دفن کرنا سکھایا۔ اس طرح قبر کھودنے اور مردہ کو دفن کرنے کا علم انسان نے ایک کوے سے سیکھا۔
اس سے دو باتیں سمجھ آتی ہیں
1۔ کہ انسان بغیر راہنمائی کے کچھ نہیں کرسکتا
2۔ علم سیکھنا چاہیے ظاہری طور پر وہ کسی کمتر سے کیوں نہ ہو
اسی طرح روحانیت بھی کسی فردواحد کی اجارہ داری نہیں اور نہ ہی یہ کسی خاص قوم، نسل یا قبیلے سے متعلق ہے
بلکہ اللہ رب العزت کی مہربانی ،عطا اور نبی علیہ الصلوةوالسلام کی پیروی سے جس پر فضل ہو جائے وہ اس راہ پر قائم رہتا ہے۔
یاد رہے کہ اس راستے میں بھی استاد کی ضرورت لازم ہے اور بغیر استاد کامل کے گمراہی کا اندیشہ ہے۔
استاد کامل کے لیے صرف عالم ہی نہیں بلکہ علوم دینی و دنیاوی پر عمل کے ساتھ ساتھ تجربہ کار ، ماہر امراض روحانیہ ، تشخیص کی مہارت رکھنا اور علاج معالجہ کی قابلیت ہونا ضروری ہے۔
جب سے اللہ رب العزت نے انسان کو اس زمین پر اتارا ہے اورحضرت انسان نے اس کائنات کو زینت بخشی ہے اسے روز بروز نت نئی تکالیف، مشقتوں اور بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ ان تکالیف، مشقتوں اور بیماریوں سے نپٹنے کے لیے انسان مالک کی عطا کردہ عقل اور اس زمانے میں موجود وسائل کا بھرپور استعمال کرتا رہا ہے۔ یہ تکالیف، مشقتیں اور بیماریاںحضرت انسان کو نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی طور پر متاءثر کرتی رہی ہیں۔
روح کی پیدائش اللہ کے حکم سے ہے اوریہ عام نگاہ سے مخفی بھی ہے اوراس کی بیماریاں بھی عام نگاہ سے پوشیدہ ہیں اس لیے اس کا علاج کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے اپنے خصوصی نمائندے بھیجے جو روح کی گہرائیوں تک جھانک لیتے اور اس کی پوشیدہ امراض کو سمجھ کر ان کا علاج فرماتے تھے۔
جبکہ جسم ظاہری ہے اور اس کو لگنے والی بیماریاں بھی ظاہری ہیں اور ان بیماریوں کی وجہ زیادہ تر انسان کی اپنی حرکات ہوتی ہیں اس لیے ان بیماریوں کو سمجھنے کے لیے اللہ نے انسان کو اتنی سمجھ بوجھ عطا فرمادی کہ وہ خود ان کا علاج کر سکے۔
اب چونکہ انسان کی تکمیل جسم اور روح کے ملاپ اور ان دونوں کی تندرستی پر منحصر ہے لہذا یہ اللہ رب العزت کا احسان عظیم ہے کہ آج کے دور میں اس نے ہمیں وہ تمام تر ذرائع و وسائل عطا فرما دیے ہیں کہ جن کی مدد سے ہم اپنی روح اور جسم دونوں کو تند رست رکھتے ہو ئے بھرپور زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
اب اللہ کی طرف سے براہ راست راہنمائی کا سلسلہ ظاہری طور پر منقطع نظر آتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج بھی اس کا کلام اور نبی آخرالزمان جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہمہ قسم کے علاج معالجہ(چاہے روح ہو یا جسم) میں اسی طرح ہماری راہنمائی کرتے ہیں جیسا کہ پہلے وقتوں میں۔اور پھر روحانی وجسمانی دونوں شعبوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نائبین موجودہیں جو کہ اپنے اپنے شعبہ کے ماہراستاد ہیں۔
جسم ظاہری شکل وصورت کا نام ہے۔ اور اس کی زیادہ تر ضرورتیں ظاہری اسباب سے پوری ہوتی ہیں۔ جیسا کہ بھوک، پیاس، شہوت وغیرہ یہ سب جسم کی ضرورتیں شمار کی جاتی ہیں اور بھوک کھانے سے، پیاس پینے اور شہوت اسکے دستیاب ذرائع سے پوری ہوتی ہے۔ اور جب بھوک ، پیاس اور شہوت پوری کرنے کے ذرائع دستیاب ہوں یا پھر بالکل نہ ہوں دونوں صورتوں میں انسان انسانیت کے جامے سے نکل جاتا ہے۔ ذرائع دستیاب ہونے کی صورت میں مہذب انداز میں درنگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور ذرائع دستیاب نہ ہونے کی صورت میں اپنی قوت اور طاقت کے حساب سے جانوروں کی خصلت اختیار کر لیتا ہے۔
انسان کا ظاہر اس کے باطن کا ترجمان ہوتا ہے۔ در حقیقت اگر روح سیر ہو اور اطاعت ربانی میں رچی بسی ہو تو اسکا ظاہر یعنی جسم روح کے تابع ہوجاتا ہے اور اس سے اعمال صالحہ ہی سر زد ہوتے ہیں اورظاہری بھوک ،پیاس اور شہوت اس پرغلبہ نہیں پاسکتے اور جب روح کمزور اوراطاعت ربانی سے دور ہوتی ہے تو اس پر یہ ظاہری احوال غلبہ پالیتے ہیں اورانسان اعمال صالحہ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور اس سے اعمال سیئہ سرزد ہونے لگتے ہیں۔
روح امر ربی ہے جس کی وجہ یہ کائنات رواں دواں ہے اور یہ انسان کے باطن کا نام ہے۔ چونکہ یہ ایک پوشیدہ نظام ہے اس کی خوراک اور ذرائع حیات بھی پوشیدہ اور مخفی ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ اللہ نے انسان کی تربیت کے اپنے خاص بندے مبعوث فرمائے جو کہ روح کی گہرائیوں تک جھانک کر انسان کی پوشیدہ روحانی بیماریوں سے آگاہ ہوجاتے تھے انہی انفاس قدسیہ کے ذریعہ سے اللہ رب العزت نے روح کی خوراک اور اس کی صفائی کے طریقے ہمیں عطا فرمائے ہیں۔ روح کی پاکیزگی اور صفائی کے سب سے زیا دہ زور رزق حلال اور صد ق مقال یعنی سچ بولنے پر دیا گیا ہے۔ اور اس کی غذا اللہ کا ذکر قرار دیا گیاہے۔
ظاہری طور پر جسم اور روح کی ضرورتیں جدا گانہ ہیں لیکن اگر بغور مطالعہ و مشاہدہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جسم کی خوراک جتنی پاکیزہ،صاف ستھری اور حلال ہو گی روح کو اتنی ہی جلا ملے گی اور اسی طرح روح جتنی پاکیزہ اور رب کے خوف اور محبت کی خوگر ہو گی اتنی پاکیزہ اورحلال خوراک کی جستجو کرے گی۔
لہذا دونوں کی ضرورتوں کا انحصار ایک دوسرے پر ہے ایک ٹھیک ہے دوسرا بھی سیدھا ہوگا اور اگر ایک میں کجی آ گئی تو دوسرا اس سے متاءثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ اسی لیے اللہ والے روحانی بیماریوں سے بچنے کے پہلے ظاہری یعنی جسمانی بیماریوں یعنی بھوک، پیاس اور شہوت سے بچنے پر زور دیتے ہیں۔ جیسا کہ کم بولنا، کم کھانا اور کم سونا صوفی ازم کا ایک لازمی سبق ہے۔
جب اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو جبرائیل سے کہا کہ جاﺅ زمین سے مٹی لے آﺅ پھر اسی مٹی کو گوندھ حضرت آدم علیہ السلام کا جسد خاکی تیار کیا گیا اور اس کے بعد اللہ رب العزت نے اپنے امر سے اس جسد خاکی میںروح پھونکی اور یوں اس انسان کی بنا رکھی گئی۔
چونکہ آدم کی تخلیق مٹی سے کی گئی اس لیے اس کی غذاوہ اشیاء قرار پائیں جو زمیں سے نکلتی ہیں۔ اناج ، غلہ، سبزیاں اور پھل سب کچھ زمین ہی میں پیدا ہوتا ہے ان سب کو انسان کے جسم کی غذا قرار دیا گیا۔ زمین سے ہی آدم کا جسم بنا یا گیا اور زمیں ہی سے اس کے جسم کی خوراک کا انتطام فرمایا گیا۔
رو ح جو کہ امر ربی ہے اور اس کی تخلیق اللہ کے براہ راست حکم سے ہوئی لہذا اس کی خوراک وہ اشیاء مقرر کی گئیں جن کا تعلق براہ راست اللہ رب العزت سے ہے۔ یعنی اللہ کی یاد اور اس کا ذکر۔
گویا کہ جسم کا تعلق زمین سے ہے اور اس کی غذاکا تعلق بھی زمیں ہی سے ہے اسی طرح روح کا تعلق اللہ سے اور کی غذا کی فراہمی بھی اللہ سے یعنی اس کے ذکر سے ہے۔
اب انسان کے ذمہ لگا دیا گیا کہ ان دونوں کی خوراک مہیا کرے اور ان نگہداشت درست طریقہ سے کرے۔ لیکن وائے کم قسمتی کی انسان ظاہر کے پیچھے لگ گیا اور باطن کو بھلا بیٹھا۔ جسم کی غذا مہیا کرنا تو اپنا فرض جان لیا لیکن روح کی غذا کی فراہمی سے غافل ہو گیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ جسم روز بروز طاقت ور ہوتا چلا گیا اور روح کمزور تر ہوتی چلی گئی جس کی وجہ سے انسان اپنے رب سے دور ہو گیا۔
جسم کی غذا کی فراہمی کے لیے ضروری ہے ایسے ذرائع اختیار کیے جائیں جن سے رزق کے ساتہ ساتھ اپنے رب کی رضا بھی حاصل ہو اور وہ غذا روح کی تقویت کا باعث بھی بنے۔
اللہ ہمیں جسم کے لیے حلال غذا کی فراہمی کے ساتھ ساتھ روح کی غذا مہیا کرنے اور اسے طاقت ور بنانے کی تو فیق عطا فرمائے۔
جیساکہ ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کے جسم کو مٹی سے تخلیق کیا گیا اور اسکی غذا بھی وہی اشیا قرار پائیں جو کہ زمین سے نکلتی ہیں۔
لیکن اس غذا کے حصول کے لیے بھی قواعد وضوابط مقرر کردیے گئے جو کہ معروف ہیں یعنی جائز طریقے سے غذا کا حصول۔ اگرانسان اپنی غذا کے حصول کے لیے جائز اور درست ذرائع اختیارکرتا ہے تو اسےاس دنیا میں بھی اور اللہ کے ہاں بھی اچھا نیک اور بہتر انسان مانا جاتا ہے اس کے بر عکس اگر خوراک کے حصول کے ذرائع غلط اور نا پسندیدہ ہوں تو ایسے شخص کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا اوریہ ایک عام فہم اور صاف بات ہے۔
اگر انسان جائز اور درست ذرائع سے رزق حاصل کرتا ہے تو اسکے جسم اور روح دونوں پراس رزق کی بدولت مثبت اثرات پڑتے ہیں اور روح روز بروز طاقت ور ہوتی چلی جاتی ہے۔اور ایسے انسان کے اخلاق و اطواردن بدن اچھے ہوتے چلے جاتے ہیں کیونکہ اس کا مقصد حیات اپنے رب کوراضی کرنا اور اس کی مخلوق کے آسانیاں پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ایسا انسان مخلوق اور خالق دونوں ک کے ہاں پسندیدہ ٹہرتا ہے کیونکہ جائز طریقے سے رزق حاصل کرنے میں وہ خالق کو بھی راضی رکھتا ہے اورمخلوق کے حقوق کی پامالی سے بھی بچتا ھے۔
اس کے برعکس ایسا انسان جس کے حصول رزق کے ذرائع ناپسندیدہ اور ناجائز ہوں تو ایسا انسان خالق اور مخلوق دونوں کی نظر میں گر جاتا ہے کیونکہ ایسا انسان رزق کے حصول میں نہ صرف خالق کے بنائے ہوئے اصول وضوابط کو توڑتا ہے بلکہ مخلوق کے حقوق کو بھی پامال کرتا ہے اور پھر دونوں کی نظر میں ناپسندیدہ ٹہرتا
 ہے اور وہ اس بات سے بھی بے پرواہ ہوتا ہے کہ اس کا رزق اس کے لیے اس جہان میں پریشانی اور آنے والے جہان میں پشیمانی کا باعث بنے گا۔
ایسے رزق سے جسم کے ساتھ ساتھ روح پر بھی بد اثرات پڑتے ہیں اورانسان کے اخلاق واطوار نہ صرف یہ کہ بگڑ جاتے ہیں بلکہ دوسروں کے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اور ایسا انسان صرف دولت اور رزق کے حصول ہی کو اپنا مطمح نظر بنا لیتا ہے۔ اس کے ہاں انسانی جذبات اور معاشرتی قدروں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔
جب غذا بری اور ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی ہو تو اس بہتری کی امید رکھنا فضول ہے اسی کے کے لیے مثل مشہور ہے" کانٹے بیج کر اچھی فصل کی امید رکھنا"
جب بھی ہم غذا کے حصول کے لیےکوشاں ہوتے ہیں تو ہماری کوشش ہوتی ہے ہمیں بہترین ، اچھی اور اعلٰی غذا میسر آئے اوراگرہماری توجہ اپنی روح کی صحت کی جانب بھی ہو تو اس کے ساتھ ساتھ ہم غذا کی پاکیزگی اور حلال ہونے کی جستجو بھی کرتےہیں۔
اچھی صاف ستھری پاکیزہ اور حلال غذا نہ صرف ہمارے بدن کو طاقت دیتی ہے بلکہ اسے تندرست وتوانا رکھنے کے ساتھ ساتھ روح کی قوت اور طاقت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ حلال اور پاکیزہ غذا گر چہ کم ہی کیوں نہ ہو اس سے انسان کو صحت کے ساتھ قلبی وذہنی سکون بھی میسرآتا ہے اور عبادات میں بھی مزا آتا ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں اسلام کی تاریخ میں نمایاں طور پہ ملتی ہیں۔
اچھی اور پاکیزہ غذانہ صرف بدن کو قوت دیتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے انسان جملہ جسمانی و روحانی امراض سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ اور اس کےبدن اور روح کے اعمال وافعال درست طریقہ سے سرانجام پاتے ہیں۔
اچھی اورپاکیزہ خوراک کے حصول کے چونکہ انسان کو بذات خود کوشش کرنا پڑتی ہے اس طرح اس کا جسم اورذہن لازمی طور پر متحرک رہتے ہیںجس کی وجہ وہ جسمانی اور ذہنی بیماریوں سے دور رہتاہے۔
مثل مشہور ہے "رزق حلال کا حصول عین عبادت ہے"
گویا جس وقت بندہ رزق حلال کی جستجو کر رہا ہوتا ہے در حقیقت وہ اپنے رب کی رضا کے حصول میں لگا ہوتا ہے۔
اسی طرح جب بندہ بے سوچے سمجھے ہر طرح کا مال بغیر حلال وحرام کی تمیز کے اکھٹا کرنے میں لگا ہوتا ہے تو اس کے پیش نظر سوائے مال اکٹھا کرنے کے کچھ اور نہیں ہوتا اور اس دوران بعض اوقت تووہ اخلاقیات اور معاشرتی قدروں کو بھی پس پشت ڈال دیتا ہے۔ ایسے رزق کا حصول اسے ہمہ قسم کی جسمانی وروحانی بیماریوں میں ملوث کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ اور انسان یہ راستہ چونکہ خود اپنی مرضی سے اختیار کرتا ہے لہذا اس کاعلاج اسے خود ہی ڈھونڈنا پڑتا ہے۔
رزق حلال کی جستجو(جس میں اللہ کی رضا کا حصول بھی مقصود ہو) انسان کو اپنے رب کے قریب کردیتی ہے اور وہ اس کی برکت سے جسمانی وروحانی امراض سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس کے بالکل برعکس حرام اور ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ غذا نہ صرف انسان کو اپنے رب سے دور کرتی ہے بلکہ اسے مختلف جسمانی و روحانی امراض کا شکار بنادیتی ہے۔
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اگر ہماری روز مرہ کی غذا جو ہم اپنے زندہ رہنے اور جسم کی تقویت کے لیےاستعمال کرتے ہیں پاکیزہ اور حلال ہوگی تو جسم کے ساتھ ساتھ روح کو بھی قوت میسر آئے گی۔ اگر ہماری جسمانی غذا حلال اور پاکیزہ ہوگی تو ہماری روحانی غذا اپنا بھرپور اثر دکھائے گی۔ اس کی مثال حضرت سلطان باہو رح کے اس شعر میں موجود ہے
" کوڑے کوہ مٹھے نہ ہوندے بھانویں سے من کھنڈاں پائیےہ ±و"
یعنی اگر پانی کا قدرتی ذائقہ ہی کڑوا ہے تو جتنی مرضی میٹھا ڈال لیں اس کی کڑواہٹ ختم نہیں ہو سکتی۔ گویا روحانی غذا اسی وقت اپنا اثر دخھائے گی جب جسمانی غذا سے جسم حلال اور پاکیزہ طریقے سے نشوونما پا چکا ہو گا۔
روحانی غذا اللہ رب العزت کا ذکر ہے اس کے فوائد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے اپنے جسم اور دل کو کو اس قدر پاکیزہ کرلیا جائے کہ وہ روحانی غذا سے 
مرتب ہونے والے اثرات کا متحمل ہو سکے۔ اور ان انوارات کو جذب کر سکے جو اللہ رب العزت کا ذکر کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔اس کی مثال برتن سے بھی دی جاتی ہے جو کہ گندگی سے اٹا پڑا ہو اور روحانی غذا کی مثال دودھ کی ہے اب کون عقلمند اس گندگی سے بھرے برتن میں دودھ ڈالے گا۔
جب جسم اور روح پاکیزہ اور صاف ہو نگے تو اس پر اللہ کی خصوصی رحمتوں اور برکات کا نزول ہو گا۔ اور انسان کی دنیا کے ساتھ ساتھ اسکی آخرت بھی سنورجائے گی۔ابتدا تو مشکلات سے بھرپور ہے لیکن اللہ کریم کی مہربانی سے استقلال اور جوانمردی سے اس راہ پر ڈٹے رہنے سے انسان اس کے اثرات خود بھی محسوس کرتاہے اور کبھی کبھی دوسرے بھی محسوس کرلیتے ہیں۔
اللہ رب العزت ہمیں اپنے برتن صاف رکھنے کی توفیق عنایت فرمائیں اور جائز وحلال غذا وافر مقدار میں عطا فرمائیں۔آمین۔
(جاری ہے)

1/05/2014

جسمانی وروحانی امراض کے ذرائع علاج

0 تبصرے

جب سے اللہ رب العزت نے انسان  سے اس کائنات کو زینت بخشی ہے اسے روز بروز نت نئی تکالیف، مشقتوں اور بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ ان تکالیف، مشقتوں اور بیماریوں سے نپٹنے کے لیے انسان مالک کی عطا کردہ عقل اور اس زمانے میں موجود وسائل کا بھرپور استعمال کرتا رہا ہے۔ یہ تکالیف، مشقتیں اور بیماریاںحضرت انسان کو نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی طور پر متاءثر کرتی رہی ہیں۔
روح کی پیدائش اللہ کے حکم سے ہے اوریہ عام نگاہ سے مخفی بھی ہے اوراس کی بیماریاں بھی عام نگاہ سے پوشیدہ ہیں اس لیے اس کا علاج کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے اپنے خصوصی نمائندے بھیجے جو روح کی گہرائیوں تک جھانک لیتے اور اس کی پوشیدہ امراض کو سمجھ کر ان کا علاج فرماتے تھے۔
جبکہ جسم ظاہری ہے اور اس کو لگنے والی بیماریاں بھی ظاہری ہیں اور ان بیماریوں کی وجہ زیادہ تر انسان کی اپنی حرکات ہوتی ہیں اس لیے ان بیماریوں کو سمجھنے کے لیے اللہ نے انسان کو اتنی سمجھ بوجھ عطا فرمادی کہ وہ خود ان کا علاج کر سکے۔ 
اب چونکہ انسان کی تکمیل جسم اور روح کے ملاپ اور ان دونوں کی تندرستی پر منحصر ہے لہذا یہ اللہ رب العزت کا احسان عظیم ہے کہ آج کے دور میں اس نے ہمیں وہ تمام تر ذرائع و وسائل عطا فرما دیے ہیں کہ جن کی مدد سےہم اپنی روح اور جسم دونوں کو تند رست رکھتے ہوئے بھرپور زندگی بسر کر سکتے ہیں ۔
اب اللہ کی طرف سے براہ راست راہنمائی کا سلسلہ ظاہری طور پر منقطع نظر آتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج بھی اس کا کلام اور نبی آخرالزمان جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہمہ قسم کے علاج معالجہ(چاہے روح ہو یا جسم) میں اسی طرح ہماری راہنمائی کرتے ہیں جیسا کہ پہلے وقتوں میں ۔اور پھر روحانی وجسمانی دونوں شعبوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےنائبین موجودہیں جو کہ اپنے اپنے شعبہ کےماہراستاد ہیں۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جسم کی زیادہ تر ضرورتیں ظاہری اسباب سے پوری ہوتی ہیں۔ جسم کی بنیادی ضرورتیں بھوک، پیاس اورشہوت ہیں بھوک کھانے سے، پیاس پینے اور شہوت اسکے دستیاب ذرائع سے پوری ہوتی ہے۔ اگر یہ تمام ضرورتیں حلال اور پاکیزہ ذرائع سے پوری کی جائیں تو جسم کو توانا صحت مند اور خوبصورت بناتی ہیں اور روح کی تقویت و بلندی درجات کا باعث بنتی ہیں۔ اور اس کے بر عکس ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناجائز اور غلط ذرائع استعمال کیے جائیں تو جسمانی و روحانی دونوں طرح کے امراض کی پیدائش کا ذریعہ بنتے ہیں۔
جب بھوک ، پیاس اور شہوت پوری کرنے کے لیے ناجائزذرائع ضرورت سے زیادہ دستیاب ہوں اور ان کے حصول میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو تو انسان میں درندوں والی خصلتیں بیدار ہونے لگتی ہیں اور اس کا جسم جسمانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ روحانی امراض کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ 
ایک بزرگ کا قول ہے 
\" جسمانی امراض کی مثال بیروں سے بھرےایک برتن کی سی ہے جبکہ روحانی امراض کی مثال تِلوں سے بھرے برتن کی ہے\"
گویا جسمانی امراض معمولی نگہداشت سے قابو میں لائے جا سکتے ہیں جبکہ روحانی امراض کے لئے معالج کا حقیقی معنوں میں سپیشلسٹ ہونا ضروری ہے ۔جسمانی بیماریاں غذا کے ردو بدل اور کمی بیشی سے دور کی جاسکتی ہیں اور یہ بیماریاںمعمولی علاج معالجے سے دور ہو جاتی ہیں۔ اور یہ دوبارہ کم ہی کسی انسان کو لگتی ہیں جبکہ روحانی بیماریوں کا علاج کسی حقیقی معالج روحانی سے مستقلا کروانا پڑتا ہے بعض اوقات ظاہری طور انسان ان سے خود کو پاک صاف تصور کرتا ہے لیکن یہ اتنی جلدی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں اور کسی نہ کسی شکل میں باقی رہ جاتی ہیں الا یہ کہ اللہ رب العزت کا خاص کرم ہو جائے۔ اور ایسا صرف ان زمانوں میں نظر آتا ہے جب تعلیمات نبویہ علیہ الصلوۃ والسلام عام تھیں اور عام مسلمانوں میں اس کا ذوق و شوق تھا اب بھی اس کی مثالیں موجودہیں مگر \"الا قلیل\"
جسمانی بیماریوں کے معالج تو عام ملتے ہیں مگر حقیقی روحانی معالج پارس اورگوہر نایاب ہیں جو قسمت والوں کے ہاتھ ہی لگتے ہیں جس طرح اس دور جدید میں امراض جسمانیہ کے لیے ہر ایک شعبے کے اندر مزید تقسیم پائی جاتی ہے اور ان کےلیےسپیشلسٹ ڈھونڈے جاتے ہیں۔ اسی طرح روحانی امراض کے اندربھی یہ تقسیم پائی جاتی ہے اور زمانہ قدیم سے ہر ہر شعبے ماہر معالج بھی پائے جاتے ہیں۔
جس طرح امراض جسمانیہ میں کچھ امراض ظاہری ہوتے ہیں اور ان کی تشخیص اور معالجہ آسان ہوتا ہے جیسے نزل، زکام اور بخار وغیرہ اور کچھ مخفی جن کو مختلف ٹیسٹ وغیرہ کی مدد سے معلوم کیا جاتاہے اور ہر مرض کا ماہر معالج علیحدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح کی تقسیم امراض روحانیہ میں بھی ہے ۔ کمی صرف درست تلاش اور درست علاج کی ہے۔
جس طرح جسمانی اور روحانی غذائیں جدا جدا ہیں اسی طرح ان کی تشخیص اورعلاج معالجہ میں بھی فرق پایا جاتا ہے لیکن کچھ چیزیں مشترکہ بھی ہیں۔ کیونکہ بعض روحانی امراض کی وجہ سے جسمانی امراض پیدا ہوتے ہیں ان دونوں کا علاج اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔
جبکہ ایسا نہ ہونے کے برابر ہےکہ کسی جسمانی مرض کی وجہ سے کوئی روحانی مرض پیدا ہو۔ بلکہ احادیث مقدسہ کی روشنی میں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ بعض جسمانی امراض کو بعض روحانی امراض کے لیے بطور علاج استعمال کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ جب بندہ جسمانی طور پربیمار ہوتا ہے تو اس کیفیات میں یک سوئی بڑھ جاتی اور اس میں رجوع اور توبہ کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے اس کیفیت سے کوئی ماہر روحانی معالج فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے مریض کا روحانی علاج بھی کرسکتا ہے اور اسکی روح کو مزید ترقیات مل سکتی ہیں۔ بلکہ پائے کے روحانی معالج جو جسمانی امراض اور کیفیات کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں روحانی مرض کی نوعیت کے اعتبار سے اپنے مریض(مرید)کے اندر جسمانی مرض پیدا کر کے اس کے ذریعہ سے روحانی وجسمانی دونوں علاج بھی کرتے ہیں ۔
اب ایسے روحانی معالج قسمت والوں کو ہی میسر آتے ہین جو کہ ان کی روحانی وجسمانی دونوں کیفیات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا علاج کریں۔
اس سلسلہ میں کچہ غلط فہمیاں عوام الناس میں پائی جاتی ہیں اور وہ بعض نہ سمجھ آنے والی کیفیات کو روحانی امراض سمجھ لیتے ہیں اور جاہل عامل اورنام نہاد روحانی معالجوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ایسی کیفیات گرچہ روحانی امراض کا عکس یا اثرات تو ہو سکتے ہیں مگربذات خود روحانی مرض نہیں ہوتے ضرورت صرف صحیح تشخیص کی ہوتی ہے۔اور اس کی صحیح تشخیص صرف قرآن و حدیث کا عالم باعمل اور پرہیز گارعامل ہی کر سکتا ہے۔
اور جس طرح جسمانی امراض میں ڈاکٹروں اور حکیموں کے بتائے گئے طریقہ کار اور پرہیز پر عمل کرنا ضروری ہے روحانی امراض اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ معالج کی ہدایات پر عمل درآمد کیا جائے۔
جسمانی امراض سے بچنے کی لیے جس طرح پرہیز ضروری ہے ویسے ہی پرہیز گاری اختیار کر کے بندہ روحانی امراض سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
اللہ سے دعاہے کہ وہ ہمیں جسمانی وروحانی دونوں طرح کے امراض سے محفوظ رکھے اور حقیقی روحانی معالجین سے فیضیاب ہونے کی تو فیق عنایت فرمائے۔آمین۔

12/27/2013

معدے کا مختصر تعارف

0 تبصرے
معدہ (Stomach)، جسم کا ایک حصہ ہے، جو جوف شکم(پیٹ کے خلائی حصہ) میں پایا جاتا ہے۔ اس کی شکل مشک سے ملتی ہے یہ نظام انہضام میں کلیدی کردار کا حامل  ہے۔اس کا مقام اور شکل حسب ذیل تصویر کی مدد سے واضح کیا گیا ہے۔
انسانی جسم میں معدہ کا مقام

ملف:Stomach diagram.svg

معدہ کی شکل  اور اس کے اجزا ء کی تفصیل


                  جب بھی ہم کوئی غذا کھاتے ہیں تو منہ کے ذریعے نرم اور باریک ہو کر غذا کی نالی کے ذریعے معدہ میں پہنچتی ہیں۔ معد کے اندر موجود حضم کردینے والی رطوبتیں اس میں جذب ہو جاتی ہیں اور غذا 3 سے 4 گھنٹوں میں تحلیل ہو کر ایک محلول کی سی شکل اختیار کرلیتی ہے جسے اطبا ء کیلوس کا نام دیتے ہیں ۔ کیلوس کا صاف اور رقیق حصہ باریک رگوں کے ذریعے جگر میں منتقل ہوجاتا ہے۔
            جسم کا صحیح اور درست طریقے سے حصول اور فائدہ حاصل کرنا معدہ ہی کے مرہون منت ہے۔ اگر معدہ تندرست ہے اور اس کے افعال ٹھیک ہیں تو جسم بہت کم بیماریوں کا شکار بن پاتا ہے۔ 
         اکثر امراض کی ابتدا معدے کی خرابیوں کی بنا پر ہی ہوتی ہے ۔ معدے کی حفاظت دراصل اپنی صحت اور تندرستی کی حفاظت ہے۔ معدہ ہی سے جسمانی امراض کےعلاوہ رؤحانی بیماریوں کا گٹھ جوڑ ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا کہ تمام انسانیت کو ہمہ قسم کی روحانی وجسمانی بیماریوں سے محفوظ رکھے آمین۔

12/22/2013

جگر (liver)

0 تبصرے
جگر (liver) جس کو علم طب و حکمت میں کبد بھی کہا جاتا ہے، ایک

ایسا عضو کے کہ جو رنگت میں گہرا سرخ اور نرم گوشت کی مانند ہوتا ہے۔ 

جگر کو انسانی جسم کا سب سے بڑا اندرونی عضو تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ

اپنے مقام کے اعتبار سے بطن کے بالائی اور دائیں جانب کے حصے میں 

نچلی پسلیوں کے پیچھے اور سینے کو بطن سے جدا کرنے والی جھلی

جسے diaphragm کے نام سے جانا جاتا ہےاسکے بالکل نیچے واقع ہوتا ہے۔ 

جگرجاندار کے جسم میں حیات یا عمل استقلاب (metabolism) ( تمام جانداروں کے 

جسم میں ہونے والے مختلف کیمیائی تعملات کی ہوتی ہے کہ جو مجموعی طور 

پر حیات کو ممکن بناتے ہیں۔ کیمیائی تعملات یا عوامل کے اس مجموعے میں وہ 

عوامل بھی شامل ہیں کہ جو جسم میں تعمیری کیمیائی تعملات کے دوران واقع 

ہوتے ہیں اور وہ عوامل بھی شامل ہیں کہ جو متعدد کیمیائی مرکبات کی توڑ پھوڑ 

کے زریعے توانائیپیدا کرنے کے دوران واقع ہوتے ہیں اسے عمل استقلاب کہا 

جاتا ہے۔)کو برقرار رکھنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے اور طبی شواہد کے 

مطابق اسکےافعال کی غیر موجودگی میں انسان لگ بھگ

عرصہ چوبیس گھنٹے سے زائد جی نہیں سکتا۔





Gray1224.png




Leber Schaf.jpg

وکییپیڈیا سے نقل کیا گیا

12/15/2013

دماغ کے عجائب

0 تبصرے
دماغ مرکزی عصبی نظام کا ایک ایسا حصہ ہے جسمیں عصبی نظام کے تمام ترمراکز موجود ہیں۔ اکثر جانداروں میں دماغ سر کے اندرموجود ایک ہڈی کے صندوق میں محفوظ ہوتا ہے جسے کاسہ سر یا کھوپڑی کہتے ہیں اور چار بنیادی حسیں (بصارت، سماعت، ذائقہ اور سونگھنا) اسکے بالکل قرب و جوار میں ملتی ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جانداروں (مثلا انسان) کے عصبی نظام میں دماغ پایاجاتا ہے مگر غیرفقاریہ جانداروں میں عصبی نظام دراصل عصبی عقدوں یاعصبی خلیات کی چھوٹی چھوٹی گرھوں پرمشتمل ہوتا ہے۔ دماغ ایک انتہائی پیچیدہ عضو ہے، اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دماغ میں تقریبا 100 ارب ( ایک کھرب) عصبیے پائے جاتے ہیں  اور پھر ان 100 ارب خلیات میں سے بھی ہر ایک ، عصبی تاروں یا ریشوں کے زریعے تقریبا 10000 دیگر خلیات کے ساتھ رابطے بناتا ہے۔
            بنیادی طور پر جانداروں کی اکثر انواع کے دماغ (بشمول انسان) کو اگر کاٹ کر دیکھا جاۓ تو یہ اپنی ساخت میں دو الگ رنگوں میں نظر آنے والے حصے دکھائی دیتے ہیں، ایک حصہ تو وہ ہوتا ہے جو کہ عام طور پر بیرونی جانب (اسکے علاوہ خاکی مادے کے مرکزوں / nuclei میں) پایا جاتا ہے اور خاکی مادے (gray matter) پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ دوسرا حصہ وہ ہوتا ہے جو کہ اندر کی جانب ہوتا ہے اور سفید رنگت کا نظر آتا ہے اسے سفید مادہ (white matter) کہتے ہیں۔
خاکی مادے میںsoma پاۓ جاتے ہیں جبکہ سفید مادے میں عصبونات سے نکلنے والے تار نما ریشے axon پاۓ جاتے ہیں۔ چونکہ axon پر چربی کی بنی ہوئی ایک عزلی تہـہ چڑھی ہوئی ہوتی ہے جسے میالین (myalin) کہتے ہیں اور اسی چربی کی تہـہ کی وجہ سے سفید مادہ ، سفید رنگ کا نظر آتا ہے۔
خاکی مادے سے بنا ہوا دماغ کا بیرونی استر نما حصہ cerebral cortex کہلاتا ہے۔ جبکہ دماغ کے اندر کا حصہ axons ، خاکی مادے کے بنے ہوۓ اجسام اور کچھ خانوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان خانوں کو بطین یا ventricles کہا جاتا ہے اور ان میں ایک مائع بھرا رہتا ہے جسکو دماغی نخاعی سیال یا cerebrospinal fluid کہتے ہیں۔ 

دماغ سے نکلنے والے اعصاب کو دماغی اعصاب کہا جاتا ہے، جو کہ سر اور ملحقہ علاقوں کا دماغ سے رابطہ کرنے کے لیۓ استعمال ہوتےہیں۔ جبکہ دماغ کے نچلے حصے سے ایک دم نما جسم منسلک ہوتا ہے جو ریڑھ کی ہڈی میں اتر جاتا ہے اسکو حرام مغز کہتے ہیں، حرام مغز سے نکلنے والے اعصاب کو نخاعی اعصاب کہا جاتا ہے اور یہ جسم کے تمام اعضا ءکو اعصابی نظام سے منسلک کرتے ہیں۔
وہ اعصابی ریشے جو کہ مرکزی عصبی نظام یعنی دماغ اور حرام مغز سے پیغامات کو جسم کے دوسرے حصوں تک پہنچاتے ہیں انکو صادر efferent کہا جاتا ہے اور وہ جو کہ جسم کے مختلف حصوں سے اطلاعات اور حسوں کو دماغ اور حرام مغز میں لے کر آتے ہیںafferent کہا جاتا ہے۔ کوئی عصب وارد(afferent) بھی ہوسکتا ہے ، صادر(efferent )بھی اور یا پھر مرکب بھی ہو سکتا ہے۔
بنیادی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ دماغ جاندار کے اندرونی ماحول میں نظم وضبط پیدا کرتا ہے اور اسے بیرونی ماحول سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ دماغ ہی ایک جاندار میں ؛ استدلال ، فراست و بصارت اور ذکاء یعنی intelligence کا منبع ہے۔ یہ ذکاء ، دماغ کے جن اہم خواص سے پیدا ہوتی ہے ان میں معرفت ، ادراک ، انتباہ ، یاداشت اور جذبات و انفعال شامل ہیں۔ دماغ ہی سے وضع اور حرکات جسم واقع ہوتی ہیں اور دماغ ہی وہ مقام ہے جہاں سے معرفی ، حـرکـی اور دیگر اقسام کے تَعلّـُـم یعنی learning کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
دماغ اپنے افعال کا ایک بڑا حصہ خودکار طور پر اور بلا جاندار کی شعوری آگاہی کہ انجام دیتا رہتا ہے ، مثال کے طور پر حسی نظام کے افعال جیسے ، حسی راہ کاری (sensory gating) اور متعدد حسی اتحاد (multisensory integration) ، چــلنا اور دیگر کئی استتبابی افعال مثلا سرعت قلب، فشار خون، سیالی توازن (fluid balance) اور جسمانی درجہ حرارت وغیرہ۔ یہ وہ چند افعال ہیں جو دماغ جاندار کو احساس ہوۓ بغیر انجام دیتا رہتا ہے۔
 جانداروں کے کئی سادہ رویۓ (behaviors) مثلا reflexes اور بنیادی حرکات وغیرہ ایسے بھی ہیں جو کہ صرف حرام مغز کی سطح پر ہی نبٹا دیۓ جاتے ہیں اور انکے لیۓ عام طور پر دماغ کو مداخلت نہیں کرنا پڑتی۔

Human brain midsagittal cut color.png
دماغ کے بارے میں اوپر بیان کردہ تمام باتیں وہ ہیں جو مشاہدات اور تجربات کے نتیجے میں اخذ ہوئیں اور ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ سائنسی علوم میں کوئی بھی بات حرف آخر نہیں یہانتک کہ اس علم کی حتمی تصدیق اس مبارک علم(وحی الٰہی) سے نہ ہو جائے، اس میں نت نئے مشاہدات سامنے آتے رہتے ہیں جو کہ دماغ کو روشن ، آنکھوں کو خیرہ ، عقل کو حیران اور اہل ایمان کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتے ہیں

(اس مضمون کی تیاری میں وکیپیڈیا سے مدد لی گئی)
دماغ اللہ کی ایسی نعمت اورعجائبات کا عظیم خزانہ ہے جسے کوئی بھی انسان ساری زندگی پوری طرح تو کیا اس کا کچھ حصہ بھی استعمال نہیں کر پاتا۔ دنیا میں جتنی ایجادات اور انسان کے بنائے عجائبات نظر آتے ہیں وہ سب اسی دماغ کا ادنٰی کرشمہ ہیں۔ 
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دماغ کو ان کاموں میں استعمال فرمائے جو اس کے پسندیدہ ہوں۔آمین۔






12/13/2013

روح اور نفس

0 تبصرے

روح اور نفس

soul سے مراد نفس کی لی گئی ہے اور یہ لفظ قرآن میں روح (spirit) کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور علماء کا ایک گروہ ان کو ایک ہی چیز کے دو متبادل نام تصور کرتا ہے جبکہ دوسرا گروہ انکو دو الگ چیزیں شمار کرتا ہے۔
نیز spirit سے مرادوہ شے لی جاتی ہے جو کہ اللہ کی جانب سے جاندار کی تخلیق کے وقت اسکے جسم میں پھونکی جاتی ہے ۔عام طور پر اس پھونکی جانے والی چیز کو روح کہا جاتا ہے، اسی سے اس جاندار کی مکمل زندگی (جسمانی اور عقلی) کی ابتداء ہوتی ہے۔ 
ان دو الفاظ کے اس متبادل استعمال کی مثالیں قرآن کے مختلف انگریزی تراجم سے بھی ملتی ہیں مثلا؛ سورہ النساء آیت ایک سو اکہتر میں روح کے لیے محمد اسد نے soul کا جبکہ یوسف علی نے spirit کا لفظ اختیار کیا ہے۔ پیچیدگی کا ایک اور مقام تب آتا ہے کہ جب اس لفظ نفس کی مصدر سے بنے ایک عام لفظ تنفس پر غور کیا جائے جس کے معنی سانس لینے کے عمل کے آتے ہیں اور اسی وجہ سے نفس کو سانس بھی کہا جاتا ہے اور اس سانس (پھونک) کے تصور کے برعکس دوسری جانب قرآن کی سورت الحجر کی آیت پندرہ میں آتا ہے کہ ۔۔۔۔ پھر جب پورا بنا چکوں میں اسے اور پھونک دوں اس میں اپنی روح تو گر جانا تم اس کے لیے سجدے میں۔ اور اس ابتدائیہ کے آخر میں ایک دلچسپ پہلو یہ کہ مذہبی (اور اسلامی دستاویزات) میں بھی نفس کو روح کے متضاد بھی تحریر کیا جاتا ہے اور نفیس بھی؛ یعنی نفسانی خواہشات کے مفہوم میں یہی نفس ہوتا ہے کہ جو انسانی وجود کو اللہ سے دور کرتا ہے اور تین طرح کا مان جاتاہے ۔ 1۔نفس امارہ، 2۔نفس لوامہ اور3۔نفس مطمئنہ اور نفس مطمئنہ روح کے قریب تر اور اسکا معاون ہے۔
لفظ نفس ، کا اردو میں کوئی ایک متفقہ مفہوم بیان کرنا ایک اتنا ہی نازک اور مشکل کام ہے کہ جتنا اس کا کوئی انگریزی متبادل بیان کرنا۔ یہ لفظ اردو زبان میں نا صرف یہ کہ مذہبی دستاویزات میں متعدد معنوں میں آتا ہے بلکہ عام بول چال میں بھی اس کا استعمال متعدد مختلف مواقع پر کیا جاتا ہے۔ بعض زرائع اسے روح سے مترادف قرار دیتے ہیں۔ نفس سے ملتا ہوا مفہوم رکھنے والا ایک اور لفظ جو کہ لفظ نفس کی طرح قرآن میں آتا ہے، وہ روح ہے جسکی انگریزی Spirit بھی کی جاتی ہے۔ علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ دونوں ایک ہی لفظ ہیں جبکہ دیگر ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ بیان کرتے ہیں۔
جبکہ روح انسان کو اللہ کی جانب لے جانے کا تصور اپنے اندر رکھتی ہے۔سادہ سے الفاظ میں تو یوں کہ سکتے ہیں کہ؛ ایک جاندار کی روح سے مراد اسکی وہ قوت حیات ہوتی ہے جو کہ اسکو غیرجاندراوں اور بیجان شدہ جانداروں سے منفرد بناتی ہے اسکے لیے انگریزی میں لفظ Spirit آتا ہے۔ 
علماء کا ایک دوسرا گروہ (کثیرالتعداد) یہ کہتا ہے کہ روح اور نفس ایک ہی شے کے دو نام ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ بھی یہ تسلیم کرتاہے کہ ان دونوں کے استعمال میں سیاق و سباق کا فرق موجود ہے، اس گروہ کی اکثریت کے نزدیک نفس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے کہ جب وہ جسم کے ساتھ ہو (یعنی بحالت زندگی اور دنیا داری) اگر اسکا جسم سے تعلق ختم ہوجائے تو روح کا لفظ لاگو ہوتا ہے۔ لیکن اس سے بات واضح نہیں ہوتی۔
نفسیاتی اور طبی لحاظ سے روح وہ بنیادی شے ہے کہ جس سے کسی جاندار کے جسم میں زندگی برقرار رہتی ہے جبکہ نفس اس روح (یا اسکی زندگی) کا جسمانی اور دنیاوی استعمال ہے۔یہ بات اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ قرآن میں بھی لفظ نفس کو شخصیت یا ذات کے معنوں میں بھی استعمال کیا گیا ہے 
جدید دور میں اسکی تعریف ایک گروہ نے اس طرح کی ہے ۔ نفس سے مراد اجسام ہیں۔ مادی جسم 228 لطیف باطنی اجسام 236 نفس انسانی شخصیت کا ہر پیمانہ نفس ہے۔اجسام انسانی شخصیت کا اظہار اس کے لباس ہیں۔ لہٰذ ا انسان کا ہر وہ جسم جس میں انسان موجود ہے نفس ہے۔ یعنی ہم جدید تحقیقات کی بدولت آج ایک انسان کے جتنے بھی اجسام (اورا، چکراز، اسبٹل باڈیز وغیرہ وغیرہ) سے واقف ہیں اور وہ اجسام بھی جن سے ابھی ہم واقف نہیں ہو پائے وہ سب نفس ہیں۔ ان تمام اجسام کا اصل آفاقی نام نفس ہے۔ لہٰذا نفس سے مراد کوئی خواہش، یا ذہن یا کوئی پیچیدہ نفسیاتی مسئلہ نہیں بلکہ مادی جسم اور لطیف اجسام کے مجموعے کو نفس کہتے ہیں۔ مادی جسم سمیت ہر جسم نفس ہی کہلائے گا۔ یعنی ہر قسم کا جسم چاہے مادی ہو یا لطیف وہ نفس ہے۔ جب کہ روح ان تمام طرح کے اجسام سے الگ شے ہے۔(بشکریہ وکیپیڈیا)
اس ساری بحث کا مقصد روح اور نفس کے مختلف نظریات سے واقفیت کا حصول ہے ۔ اور حقیقی مقصد یہ ہے کہ ہم ہر شے کی ضرورت ،اہمیت،مقام اور مرتبے سے آگاہ ہو سکیں اور ان کا استعمال اس طرح کر سکیں جس سے ہمیں اللہ کی رضا حاصل ہو اور اس دنیا میں بھی اور آنے والی دنیا میں ہم سرخرو ہوسکیں - اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں سمجھ عنایت فرمائے اور راہ حق کی پیروی نصیب فرمائے۔ آمین۔

12/08/2013

دل یا قلب

0 تبصرے
دل کیا ہے؟

ظاہری اعتبار سے گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔ جس کی حرکت اور دھڑکن زندگی کی علامت ہے۔ اطبا ء جدید و قدیم کے اس کا کام جسم میں خون کی گردش برقرار رکھنا ہے۔  خون کی صفائی کا کام جگر، گردے اور پھیپھڑوں کے ذمہ ہے۔ خون جسم کے تمام اعضاء سے ہوتا ہوا وریدوں کے ذریعے دل تک پہنچتا ہے اور پھر دل سے نکلنے والی شریانوں کے پھر تمام جسم میں چلا جاتا ہے۔ اس کی دھڑکن اگرترتیب میں ہے تو جسم کی تمام ترتیبات ٹھیک ہیں اگر اس کی دھڑکن میں کوئی تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے تو تمام جسم کا نظام تلپٹ ہو جاتا ہے۔ فی زمانہ اس کی بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں - جدید تحقیقات کے مطابق پوری دنیا میں دل کے مریضوں کی تعداد 20 فیصد سے زائد مانی جارہی ہے۔

قلب کیا ہے؟

عربی میں دل کو قلب کہا گیا ہے۔ صوفیا کے نزدیک یہ ایک استعارہ ہے حقیقتاً قلب کا تعلق اللہ رب العزت سے ہے۔ اوراس کا تعلق انسان کے باطنی اعمال اور کیفیات سے بھی ہے۔اسکے درست ہونے کو پورے بدن کا درست ہونا قرار دیا گیا ہے جیسا کہ مفہوم ارشاد نبوی علیہ السلام ہے:
" جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہے تو تمام جسم ٹھیک ہے
 اور اگر وہ خراب ہے تو تمام جسم خراب ہے ۔ خبردار رہو  کہ وہ قلب (دل) ہے۔"
مقام غور ہے کہ چاہے بیماری بدنی ہو یا روحانی اس کا ابتدائی مرکز دل (قلب)ہے جس کی خرابی سے تمام جسم میں خرابیاں پیدا ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
اور جس طرح ہم ظاہری اعتبار سے دل کی ممکنہ بیماریوں سے بچنے کے چارہ جوئی کرتے ہیں اور پرہیز وعلاج کا اہتمام کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ ہم اپنے قلب کی پاکیزگی، صفائی اور پرہیزگاری کا اہتمام کریں کیونکہ یہ جسم عارضی ہے اور اس کو لگنے والے مرض عارضی ان کا علاج اگر رہ بھی گیا تو موت تمام دنیاوی تکلیفوں سے چھٹکارا دلا دینے والی ہے۔
 جبکہ مرنے کے بعد آنے والا جہان عارضی نہیں اور نہ ہی اس کے انعامات یا تکالیف عارضی ہیں ۔ لہذا عارضی زندگی کی تکلیفوں سے بچنے کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کی زندگی کی تکلیفوں سے بچنے کے لیے سوچنا بھی ضروری ہے۔
اس بحث سے  ہم یہ بھی اخذ کرسکتے ہیں کہ دل ظاہری جسم ہے اور قلب اسکی روحانی حالت۔ یہ تخصیص صرف بات کو واضح کرنے کے لیے ہے ورنہ لفظی اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے
قلب کی بیماریوں سے بچنے کے علاج پہلے ہی بتا دیا گیا ہے

ہر شے( کو چمکانے )کے لیے صقالہ ہے
اور دل( کو چمکانے) کے لیے صقالہ اللہ کا ذکر ہے

 جس طرح امراض دل کی بہت ساری اقسام ہیں اور ان کے ماہر معالج دنیا میں ملتے ہیں اسی طرح امراض قلب کی بھی بہت ساری اقسام ہیں اوران کے معالج بھی ملتے ہیں۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم امراض جسمانیہ سے تندرستی کو ترجیح دیتے ہیں یا امراض روحانیہ سے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمارے قلوب کو ویسا کردے جیسا کہ اس کو مطلوب ہے ۔ آمین۔