ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارا بدن اچھی غذائوں سے فائدہ حاصل کرتا ہے اور ناقص غذائیں ہمارے بدن کا حصہ بن اس کے لیےضعف اور بیماری کا باعث بنتی ہیں۔ اور جب بھی ہم کوئ غذا لیتے چاہے بہترین ہو یا ناقص وہ معدے میں جاتی ہے اور وہاں اس پر مختلف کیمیائی عوامل وقوع پذیر ہوتے ہیں جس کے بعد وہ ہمارے بدن کاجزو بنتی ہے۔ اگر غذا معتدل اور جسم کے مزاج کے موافق ہو تو اس جسم کو فائدہ حاصل ہوتا ہے اور ایسی غذا انسان کو قوت فراہم کرتی ہے۔ اور جیسا کہ ہم نے اپنے علماء سے سنا ہے کہ جب ہم غذا کا لقمہ منہ میں رکھتے ہیںتو وہ لقمہ اللہ سے اجازت کا طلٓب گار ہوتا ہے کہ ہمارے لیے صحت بنے یا بیماری۔
اگر اللہ کی طرف سے بیماری کا فیصلہ آجائے تو قیمتی سے قیمتی اور بہترین غذا انسان کے لیے زہر بن جاتی ہے۔ جیسا کہ ہمارا مشاہدہ کہ کچھ لوگوں کو ڈاکٹراورحکیم سب کچھ کھاناچھڑوا دیتے ہیں اور ان کا گذارا صرف معمولی دال دلیے پر ہوتا ہے اور اس کے علاوہ ہر شے نقصان دہ قرار پاتی ہے۔
چونکہ غذا معدے میں جانے کے بعد ہی انسان کے جسم کا جزو بنتی ہے اس معدہ ہی وہ مقام ہے جہاں سے بیماری یا صحت کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔
امراض جسمانیہ وروحانیہ کئی طرح کے ہوتے ہیں انہیں اجمالی طور پر دو بڑے حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ اندرونی امراض اور بیرونی امراض۔
بیرونی امراض کا اندازہ تو مریض کے ظاہری مشاہدہ سے کیا جاسکتا ہے جبکہ اندرونی امراض کو جاننے کے تفصیلی مذاکرے، مشاہدے وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
حوادث کے علاوہ بدن کے اندرون میں پیدا ہونے والی اکثر بیماریوں کا مرکز معدہ مانا جاتاہے۔ درد جگر ہو،ضعف دماغ یا عارضہ قلب ڈاکٹر یا حکیم کا پہلا سوال غذا کے متعلق ہی ہوتا ہے۔اسی بنیاد پر بدنی بیماریوں اور عوارض کا بنیادی مرکزمعدہ کو کہا جاتا ہے۔
ماہرین روحانیہ کے نزدیک امراض روحانیہ کا مرکز نفس کو کہا جاتا ہے اور نفس کا مقام معدہ کے عین نیچے ہے.
یہ نفس ہی ہے جس کی تحریک پر معدہ اچھی اور بہتر غذا کی خواہش رکھتا ہے۔ اور اسے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ غذا کے حصول کے کونسا طریقہ اختیا ر کیا جائے۔ یہ تو عقل ہے جو اس کی راہنمائی کرتی ہے۔
اللہ رب العزت نے عقل کو چوکیدار مقرر فرمایا ہے تاکہ معدہ اور نفس کی باہمی میل جول سے انسان ان کے قابو میں آکر کہیں غلط راہوں پرنہ چل کھڑاہو۔
امام غزالی نے عقل اور نفس کی مثال سوار اور گھوڑے کی دی ہے اگر گھوڑا طاقتورہو گا تو سوار کو گرادے گا اور اگرسوار طاقتور ہوگا تو گھوڑے کو اپنے راستے پر لے چلے گا ۔
نفس اندھیری راہوں کا مسافر ہے اسے بس اپنے مقصد کے حصول سے غرض ہوتی ہے اور اس کے طریقے سے نہیں چاہے غلط ہو یا ٹھیک۔ جبکہ عقل سلیم روح کی نمائندہ ہے اور اس کا تعلق آسمانوں سے اس لیے وہ آسمانی علوم کی روشنی میں اپنی راہ کا تعیین کرتی ہے اور صرف اسی طریقے اور ذریعے کو اختیا ر کرتی ہے جن میں علوم الٰہیہ اس کی راہنمائی کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو امراض روحانیہ سے محفوظ رکھتی ہے۔
جس طرح امراض جسمانیہ کا آغآز عموماً غذا کی بے اعتدالی سے ہوتا ہے اسی طرح روحآنی امراض کا آغاز نفس کی پسند پر چلنے سے ہوتاہے
ابتدا میں امراض جسمانیہ مفرد ہوتے ہیں اور مناسب علاج معالجہ سے قابو میں آجاتے ہیں اگر ان کے علاج میں کہیں غلطی ہوجائے یا دیر ہوجائے تو یہ مرکب صورت اختیار کرلیتے ہیں لیکن پھربھی ایک حد تک ماہر معالجین ان پر قابو پالیتے ہیں۔
اسی طرح امراض روحآنیہ بھی ابتدا میں مفرد ہوتے ہیں لیکن چونکہ ان پر ہماری توجہ اتنی نہیں ہوتی جتنی امراض بدنیہ پر، اس وجہ سے یہ مرکب در مرکب ہوجاتے ہیں اور ان میں سے بعض ایسی صورت اختیار کرلیتے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو مریض کی بجائے معالج تصورکرنےلگ جاتا ہےاوراس کا علاج ناممکن ہوجاتا ہے الا یہ کہ اللہ کی طرف خصوصی رحمت ہوجائے۔
اور بعض دفعہ علاج کے دوران یہ امرض اپنی صورت بدل کرمعالج کو بھی دھوکہ دے سکتے ہیں۔اس کا علاج صرف وہی کرسکتا ہے جو علوم قرآن وسنت کا نہ صرف حقیقی عالم ہو بلکہ عاملِِِِِ کامل بھی ہو۔
عامل بمعنی ذاتی طور عمل کرنے والا قرآن وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے والا نہ کہ جھاڑ پھونک والا۔
اگر اللہ کی طرف سے بیماری کا فیصلہ آجائے تو قیمتی سے قیمتی اور بہترین غذا انسان کے لیے زہر بن جاتی ہے۔ جیسا کہ ہمارا مشاہدہ کہ کچھ لوگوں کو ڈاکٹراورحکیم سب کچھ کھاناچھڑوا دیتے ہیں اور ان کا گذارا صرف معمولی دال دلیے پر ہوتا ہے اور اس کے علاوہ ہر شے نقصان دہ قرار پاتی ہے۔
چونکہ غذا معدے میں جانے کے بعد ہی انسان کے جسم کا جزو بنتی ہے اس معدہ ہی وہ مقام ہے جہاں سے بیماری یا صحت کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔
امراض جسمانیہ وروحانیہ کئی طرح کے ہوتے ہیں انہیں اجمالی طور پر دو بڑے حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ اندرونی امراض اور بیرونی امراض۔
بیرونی امراض کا اندازہ تو مریض کے ظاہری مشاہدہ سے کیا جاسکتا ہے جبکہ اندرونی امراض کو جاننے کے تفصیلی مذاکرے، مشاہدے وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
حوادث کے علاوہ بدن کے اندرون میں پیدا ہونے والی اکثر بیماریوں کا مرکز معدہ مانا جاتاہے۔ درد جگر ہو،ضعف دماغ یا عارضہ قلب ڈاکٹر یا حکیم کا پہلا سوال غذا کے متعلق ہی ہوتا ہے۔اسی بنیاد پر بدنی بیماریوں اور عوارض کا بنیادی مرکزمعدہ کو کہا جاتا ہے۔
ماہرین روحانیہ کے نزدیک امراض روحانیہ کا مرکز نفس کو کہا جاتا ہے اور نفس کا مقام معدہ کے عین نیچے ہے.
یہ نفس ہی ہے جس کی تحریک پر معدہ اچھی اور بہتر غذا کی خواہش رکھتا ہے۔ اور اسے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ غذا کے حصول کے کونسا طریقہ اختیا ر کیا جائے۔ یہ تو عقل ہے جو اس کی راہنمائی کرتی ہے۔
اللہ رب العزت نے عقل کو چوکیدار مقرر فرمایا ہے تاکہ معدہ اور نفس کی باہمی میل جول سے انسان ان کے قابو میں آکر کہیں غلط راہوں پرنہ چل کھڑاہو۔
امام غزالی نے عقل اور نفس کی مثال سوار اور گھوڑے کی دی ہے اگر گھوڑا طاقتورہو گا تو سوار کو گرادے گا اور اگرسوار طاقتور ہوگا تو گھوڑے کو اپنے راستے پر لے چلے گا ۔
نفس اندھیری راہوں کا مسافر ہے اسے بس اپنے مقصد کے حصول سے غرض ہوتی ہے اور اس کے طریقے سے نہیں چاہے غلط ہو یا ٹھیک۔ جبکہ عقل سلیم روح کی نمائندہ ہے اور اس کا تعلق آسمانوں سے اس لیے وہ آسمانی علوم کی روشنی میں اپنی راہ کا تعیین کرتی ہے اور صرف اسی طریقے اور ذریعے کو اختیا ر کرتی ہے جن میں علوم الٰہیہ اس کی راہنمائی کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو امراض روحانیہ سے محفوظ رکھتی ہے۔
جس طرح امراض جسمانیہ کا آغآز عموماً غذا کی بے اعتدالی سے ہوتا ہے اسی طرح روحآنی امراض کا آغاز نفس کی پسند پر چلنے سے ہوتاہے
ابتدا میں امراض جسمانیہ مفرد ہوتے ہیں اور مناسب علاج معالجہ سے قابو میں آجاتے ہیں اگر ان کے علاج میں کہیں غلطی ہوجائے یا دیر ہوجائے تو یہ مرکب صورت اختیار کرلیتے ہیں لیکن پھربھی ایک حد تک ماہر معالجین ان پر قابو پالیتے ہیں۔
اسی طرح امراض روحآنیہ بھی ابتدا میں مفرد ہوتے ہیں لیکن چونکہ ان پر ہماری توجہ اتنی نہیں ہوتی جتنی امراض بدنیہ پر، اس وجہ سے یہ مرکب در مرکب ہوجاتے ہیں اور ان میں سے بعض ایسی صورت اختیار کرلیتے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو مریض کی بجائے معالج تصورکرنےلگ جاتا ہےاوراس کا علاج ناممکن ہوجاتا ہے الا یہ کہ اللہ کی طرف خصوصی رحمت ہوجائے۔
اور بعض دفعہ علاج کے دوران یہ امرض اپنی صورت بدل کرمعالج کو بھی دھوکہ دے سکتے ہیں۔اس کا علاج صرف وہی کرسکتا ہے جو علوم قرآن وسنت کا نہ صرف حقیقی عالم ہو بلکہ عاملِِِِِ کامل بھی ہو۔
عامل بمعنی ذاتی طور عمل کرنے والا قرآن وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے والا نہ کہ جھاڑ پھونک والا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں عاملین کاملین سے اپنے روحانی علاج کروانے کی تو فیق عنایت فرمائیں ۔ آمین۔
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔