12/27/2013

معدے کا مختصر تعارف

0 تبصرے
معدہ (Stomach)، جسم کا ایک حصہ ہے، جو جوف شکم(پیٹ کے خلائی حصہ) میں پایا جاتا ہے۔ اس کی شکل مشک سے ملتی ہے یہ نظام انہضام میں کلیدی کردار کا حامل  ہے۔اس کا مقام اور شکل حسب ذیل تصویر کی مدد سے واضح کیا گیا ہے۔
انسانی جسم میں معدہ کا مقام

ملف:Stomach diagram.svg

معدہ کی شکل  اور اس کے اجزا ء کی تفصیل


                  جب بھی ہم کوئی غذا کھاتے ہیں تو منہ کے ذریعے نرم اور باریک ہو کر غذا کی نالی کے ذریعے معدہ میں پہنچتی ہیں۔ معد کے اندر موجود حضم کردینے والی رطوبتیں اس میں جذب ہو جاتی ہیں اور غذا 3 سے 4 گھنٹوں میں تحلیل ہو کر ایک محلول کی سی شکل اختیار کرلیتی ہے جسے اطبا ء کیلوس کا نام دیتے ہیں ۔ کیلوس کا صاف اور رقیق حصہ باریک رگوں کے ذریعے جگر میں منتقل ہوجاتا ہے۔
            جسم کا صحیح اور درست طریقے سے حصول اور فائدہ حاصل کرنا معدہ ہی کے مرہون منت ہے۔ اگر معدہ تندرست ہے اور اس کے افعال ٹھیک ہیں تو جسم بہت کم بیماریوں کا شکار بن پاتا ہے۔ 
         اکثر امراض کی ابتدا معدے کی خرابیوں کی بنا پر ہی ہوتی ہے ۔ معدے کی حفاظت دراصل اپنی صحت اور تندرستی کی حفاظت ہے۔ معدہ ہی سے جسمانی امراض کےعلاوہ رؤحانی بیماریوں کا گٹھ جوڑ ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا کہ تمام انسانیت کو ہمہ قسم کی روحانی وجسمانی بیماریوں سے محفوظ رکھے آمین۔

12/22/2013

جگر (liver)

0 تبصرے
جگر (liver) جس کو علم طب و حکمت میں کبد بھی کہا جاتا ہے، ایک

ایسا عضو کے کہ جو رنگت میں گہرا سرخ اور نرم گوشت کی مانند ہوتا ہے۔ 

جگر کو انسانی جسم کا سب سے بڑا اندرونی عضو تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ

اپنے مقام کے اعتبار سے بطن کے بالائی اور دائیں جانب کے حصے میں 

نچلی پسلیوں کے پیچھے اور سینے کو بطن سے جدا کرنے والی جھلی

جسے diaphragm کے نام سے جانا جاتا ہےاسکے بالکل نیچے واقع ہوتا ہے۔ 

جگرجاندار کے جسم میں حیات یا عمل استقلاب (metabolism) ( تمام جانداروں کے 

جسم میں ہونے والے مختلف کیمیائی تعملات کی ہوتی ہے کہ جو مجموعی طور 

پر حیات کو ممکن بناتے ہیں۔ کیمیائی تعملات یا عوامل کے اس مجموعے میں وہ 

عوامل بھی شامل ہیں کہ جو جسم میں تعمیری کیمیائی تعملات کے دوران واقع 

ہوتے ہیں اور وہ عوامل بھی شامل ہیں کہ جو متعدد کیمیائی مرکبات کی توڑ پھوڑ 

کے زریعے توانائیپیدا کرنے کے دوران واقع ہوتے ہیں اسے عمل استقلاب کہا 

جاتا ہے۔)کو برقرار رکھنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے اور طبی شواہد کے 

مطابق اسکےافعال کی غیر موجودگی میں انسان لگ بھگ

عرصہ چوبیس گھنٹے سے زائد جی نہیں سکتا۔





Gray1224.png




Leber Schaf.jpg

وکییپیڈیا سے نقل کیا گیا

12/15/2013

دماغ کے عجائب

0 تبصرے
دماغ مرکزی عصبی نظام کا ایک ایسا حصہ ہے جسمیں عصبی نظام کے تمام ترمراکز موجود ہیں۔ اکثر جانداروں میں دماغ سر کے اندرموجود ایک ہڈی کے صندوق میں محفوظ ہوتا ہے جسے کاسہ سر یا کھوپڑی کہتے ہیں اور چار بنیادی حسیں (بصارت، سماعت، ذائقہ اور سونگھنا) اسکے بالکل قرب و جوار میں ملتی ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جانداروں (مثلا انسان) کے عصبی نظام میں دماغ پایاجاتا ہے مگر غیرفقاریہ جانداروں میں عصبی نظام دراصل عصبی عقدوں یاعصبی خلیات کی چھوٹی چھوٹی گرھوں پرمشتمل ہوتا ہے۔ دماغ ایک انتہائی پیچیدہ عضو ہے، اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دماغ میں تقریبا 100 ارب ( ایک کھرب) عصبیے پائے جاتے ہیں  اور پھر ان 100 ارب خلیات میں سے بھی ہر ایک ، عصبی تاروں یا ریشوں کے زریعے تقریبا 10000 دیگر خلیات کے ساتھ رابطے بناتا ہے۔
            بنیادی طور پر جانداروں کی اکثر انواع کے دماغ (بشمول انسان) کو اگر کاٹ کر دیکھا جاۓ تو یہ اپنی ساخت میں دو الگ رنگوں میں نظر آنے والے حصے دکھائی دیتے ہیں، ایک حصہ تو وہ ہوتا ہے جو کہ عام طور پر بیرونی جانب (اسکے علاوہ خاکی مادے کے مرکزوں / nuclei میں) پایا جاتا ہے اور خاکی مادے (gray matter) پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ دوسرا حصہ وہ ہوتا ہے جو کہ اندر کی جانب ہوتا ہے اور سفید رنگت کا نظر آتا ہے اسے سفید مادہ (white matter) کہتے ہیں۔
خاکی مادے میںsoma پاۓ جاتے ہیں جبکہ سفید مادے میں عصبونات سے نکلنے والے تار نما ریشے axon پاۓ جاتے ہیں۔ چونکہ axon پر چربی کی بنی ہوئی ایک عزلی تہـہ چڑھی ہوئی ہوتی ہے جسے میالین (myalin) کہتے ہیں اور اسی چربی کی تہـہ کی وجہ سے سفید مادہ ، سفید رنگ کا نظر آتا ہے۔
خاکی مادے سے بنا ہوا دماغ کا بیرونی استر نما حصہ cerebral cortex کہلاتا ہے۔ جبکہ دماغ کے اندر کا حصہ axons ، خاکی مادے کے بنے ہوۓ اجسام اور کچھ خانوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان خانوں کو بطین یا ventricles کہا جاتا ہے اور ان میں ایک مائع بھرا رہتا ہے جسکو دماغی نخاعی سیال یا cerebrospinal fluid کہتے ہیں۔ 

دماغ سے نکلنے والے اعصاب کو دماغی اعصاب کہا جاتا ہے، جو کہ سر اور ملحقہ علاقوں کا دماغ سے رابطہ کرنے کے لیۓ استعمال ہوتےہیں۔ جبکہ دماغ کے نچلے حصے سے ایک دم نما جسم منسلک ہوتا ہے جو ریڑھ کی ہڈی میں اتر جاتا ہے اسکو حرام مغز کہتے ہیں، حرام مغز سے نکلنے والے اعصاب کو نخاعی اعصاب کہا جاتا ہے اور یہ جسم کے تمام اعضا ءکو اعصابی نظام سے منسلک کرتے ہیں۔
وہ اعصابی ریشے جو کہ مرکزی عصبی نظام یعنی دماغ اور حرام مغز سے پیغامات کو جسم کے دوسرے حصوں تک پہنچاتے ہیں انکو صادر efferent کہا جاتا ہے اور وہ جو کہ جسم کے مختلف حصوں سے اطلاعات اور حسوں کو دماغ اور حرام مغز میں لے کر آتے ہیںafferent کہا جاتا ہے۔ کوئی عصب وارد(afferent) بھی ہوسکتا ہے ، صادر(efferent )بھی اور یا پھر مرکب بھی ہو سکتا ہے۔
بنیادی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ دماغ جاندار کے اندرونی ماحول میں نظم وضبط پیدا کرتا ہے اور اسے بیرونی ماحول سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ دماغ ہی ایک جاندار میں ؛ استدلال ، فراست و بصارت اور ذکاء یعنی intelligence کا منبع ہے۔ یہ ذکاء ، دماغ کے جن اہم خواص سے پیدا ہوتی ہے ان میں معرفت ، ادراک ، انتباہ ، یاداشت اور جذبات و انفعال شامل ہیں۔ دماغ ہی سے وضع اور حرکات جسم واقع ہوتی ہیں اور دماغ ہی وہ مقام ہے جہاں سے معرفی ، حـرکـی اور دیگر اقسام کے تَعلّـُـم یعنی learning کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
دماغ اپنے افعال کا ایک بڑا حصہ خودکار طور پر اور بلا جاندار کی شعوری آگاہی کہ انجام دیتا رہتا ہے ، مثال کے طور پر حسی نظام کے افعال جیسے ، حسی راہ کاری (sensory gating) اور متعدد حسی اتحاد (multisensory integration) ، چــلنا اور دیگر کئی استتبابی افعال مثلا سرعت قلب، فشار خون، سیالی توازن (fluid balance) اور جسمانی درجہ حرارت وغیرہ۔ یہ وہ چند افعال ہیں جو دماغ جاندار کو احساس ہوۓ بغیر انجام دیتا رہتا ہے۔
 جانداروں کے کئی سادہ رویۓ (behaviors) مثلا reflexes اور بنیادی حرکات وغیرہ ایسے بھی ہیں جو کہ صرف حرام مغز کی سطح پر ہی نبٹا دیۓ جاتے ہیں اور انکے لیۓ عام طور پر دماغ کو مداخلت نہیں کرنا پڑتی۔

Human brain midsagittal cut color.png
دماغ کے بارے میں اوپر بیان کردہ تمام باتیں وہ ہیں جو مشاہدات اور تجربات کے نتیجے میں اخذ ہوئیں اور ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ سائنسی علوم میں کوئی بھی بات حرف آخر نہیں یہانتک کہ اس علم کی حتمی تصدیق اس مبارک علم(وحی الٰہی) سے نہ ہو جائے، اس میں نت نئے مشاہدات سامنے آتے رہتے ہیں جو کہ دماغ کو روشن ، آنکھوں کو خیرہ ، عقل کو حیران اور اہل ایمان کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتے ہیں

(اس مضمون کی تیاری میں وکیپیڈیا سے مدد لی گئی)
دماغ اللہ کی ایسی نعمت اورعجائبات کا عظیم خزانہ ہے جسے کوئی بھی انسان ساری زندگی پوری طرح تو کیا اس کا کچھ حصہ بھی استعمال نہیں کر پاتا۔ دنیا میں جتنی ایجادات اور انسان کے بنائے عجائبات نظر آتے ہیں وہ سب اسی دماغ کا ادنٰی کرشمہ ہیں۔ 
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دماغ کو ان کاموں میں استعمال فرمائے جو اس کے پسندیدہ ہوں۔آمین۔






12/13/2013

روح اور نفس

0 تبصرے

روح اور نفس

soul سے مراد نفس کی لی گئی ہے اور یہ لفظ قرآن میں روح (spirit) کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور علماء کا ایک گروہ ان کو ایک ہی چیز کے دو متبادل نام تصور کرتا ہے جبکہ دوسرا گروہ انکو دو الگ چیزیں شمار کرتا ہے۔
نیز spirit سے مرادوہ شے لی جاتی ہے جو کہ اللہ کی جانب سے جاندار کی تخلیق کے وقت اسکے جسم میں پھونکی جاتی ہے ۔عام طور پر اس پھونکی جانے والی چیز کو روح کہا جاتا ہے، اسی سے اس جاندار کی مکمل زندگی (جسمانی اور عقلی) کی ابتداء ہوتی ہے۔ 
ان دو الفاظ کے اس متبادل استعمال کی مثالیں قرآن کے مختلف انگریزی تراجم سے بھی ملتی ہیں مثلا؛ سورہ النساء آیت ایک سو اکہتر میں روح کے لیے محمد اسد نے soul کا جبکہ یوسف علی نے spirit کا لفظ اختیار کیا ہے۔ پیچیدگی کا ایک اور مقام تب آتا ہے کہ جب اس لفظ نفس کی مصدر سے بنے ایک عام لفظ تنفس پر غور کیا جائے جس کے معنی سانس لینے کے عمل کے آتے ہیں اور اسی وجہ سے نفس کو سانس بھی کہا جاتا ہے اور اس سانس (پھونک) کے تصور کے برعکس دوسری جانب قرآن کی سورت الحجر کی آیت پندرہ میں آتا ہے کہ ۔۔۔۔ پھر جب پورا بنا چکوں میں اسے اور پھونک دوں اس میں اپنی روح تو گر جانا تم اس کے لیے سجدے میں۔ اور اس ابتدائیہ کے آخر میں ایک دلچسپ پہلو یہ کہ مذہبی (اور اسلامی دستاویزات) میں بھی نفس کو روح کے متضاد بھی تحریر کیا جاتا ہے اور نفیس بھی؛ یعنی نفسانی خواہشات کے مفہوم میں یہی نفس ہوتا ہے کہ جو انسانی وجود کو اللہ سے دور کرتا ہے اور تین طرح کا مان جاتاہے ۔ 1۔نفس امارہ، 2۔نفس لوامہ اور3۔نفس مطمئنہ اور نفس مطمئنہ روح کے قریب تر اور اسکا معاون ہے۔
لفظ نفس ، کا اردو میں کوئی ایک متفقہ مفہوم بیان کرنا ایک اتنا ہی نازک اور مشکل کام ہے کہ جتنا اس کا کوئی انگریزی متبادل بیان کرنا۔ یہ لفظ اردو زبان میں نا صرف یہ کہ مذہبی دستاویزات میں متعدد معنوں میں آتا ہے بلکہ عام بول چال میں بھی اس کا استعمال متعدد مختلف مواقع پر کیا جاتا ہے۔ بعض زرائع اسے روح سے مترادف قرار دیتے ہیں۔ نفس سے ملتا ہوا مفہوم رکھنے والا ایک اور لفظ جو کہ لفظ نفس کی طرح قرآن میں آتا ہے، وہ روح ہے جسکی انگریزی Spirit بھی کی جاتی ہے۔ علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ دونوں ایک ہی لفظ ہیں جبکہ دیگر ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ بیان کرتے ہیں۔
جبکہ روح انسان کو اللہ کی جانب لے جانے کا تصور اپنے اندر رکھتی ہے۔سادہ سے الفاظ میں تو یوں کہ سکتے ہیں کہ؛ ایک جاندار کی روح سے مراد اسکی وہ قوت حیات ہوتی ہے جو کہ اسکو غیرجاندراوں اور بیجان شدہ جانداروں سے منفرد بناتی ہے اسکے لیے انگریزی میں لفظ Spirit آتا ہے۔ 
علماء کا ایک دوسرا گروہ (کثیرالتعداد) یہ کہتا ہے کہ روح اور نفس ایک ہی شے کے دو نام ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ بھی یہ تسلیم کرتاہے کہ ان دونوں کے استعمال میں سیاق و سباق کا فرق موجود ہے، اس گروہ کی اکثریت کے نزدیک نفس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے کہ جب وہ جسم کے ساتھ ہو (یعنی بحالت زندگی اور دنیا داری) اگر اسکا جسم سے تعلق ختم ہوجائے تو روح کا لفظ لاگو ہوتا ہے۔ لیکن اس سے بات واضح نہیں ہوتی۔
نفسیاتی اور طبی لحاظ سے روح وہ بنیادی شے ہے کہ جس سے کسی جاندار کے جسم میں زندگی برقرار رہتی ہے جبکہ نفس اس روح (یا اسکی زندگی) کا جسمانی اور دنیاوی استعمال ہے۔یہ بات اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ قرآن میں بھی لفظ نفس کو شخصیت یا ذات کے معنوں میں بھی استعمال کیا گیا ہے 
جدید دور میں اسکی تعریف ایک گروہ نے اس طرح کی ہے ۔ نفس سے مراد اجسام ہیں۔ مادی جسم 228 لطیف باطنی اجسام 236 نفس انسانی شخصیت کا ہر پیمانہ نفس ہے۔اجسام انسانی شخصیت کا اظہار اس کے لباس ہیں۔ لہٰذ ا انسان کا ہر وہ جسم جس میں انسان موجود ہے نفس ہے۔ یعنی ہم جدید تحقیقات کی بدولت آج ایک انسان کے جتنے بھی اجسام (اورا، چکراز، اسبٹل باڈیز وغیرہ وغیرہ) سے واقف ہیں اور وہ اجسام بھی جن سے ابھی ہم واقف نہیں ہو پائے وہ سب نفس ہیں۔ ان تمام اجسام کا اصل آفاقی نام نفس ہے۔ لہٰذا نفس سے مراد کوئی خواہش، یا ذہن یا کوئی پیچیدہ نفسیاتی مسئلہ نہیں بلکہ مادی جسم اور لطیف اجسام کے مجموعے کو نفس کہتے ہیں۔ مادی جسم سمیت ہر جسم نفس ہی کہلائے گا۔ یعنی ہر قسم کا جسم چاہے مادی ہو یا لطیف وہ نفس ہے۔ جب کہ روح ان تمام طرح کے اجسام سے الگ شے ہے۔(بشکریہ وکیپیڈیا)
اس ساری بحث کا مقصد روح اور نفس کے مختلف نظریات سے واقفیت کا حصول ہے ۔ اور حقیقی مقصد یہ ہے کہ ہم ہر شے کی ضرورت ،اہمیت،مقام اور مرتبے سے آگاہ ہو سکیں اور ان کا استعمال اس طرح کر سکیں جس سے ہمیں اللہ کی رضا حاصل ہو اور اس دنیا میں بھی اور آنے والی دنیا میں ہم سرخرو ہوسکیں - اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں سمجھ عنایت فرمائے اور راہ حق کی پیروی نصیب فرمائے۔ آمین۔

12/08/2013

دل یا قلب

0 تبصرے
دل کیا ہے؟

ظاہری اعتبار سے گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔ جس کی حرکت اور دھڑکن زندگی کی علامت ہے۔ اطبا ء جدید و قدیم کے اس کا کام جسم میں خون کی گردش برقرار رکھنا ہے۔  خون کی صفائی کا کام جگر، گردے اور پھیپھڑوں کے ذمہ ہے۔ خون جسم کے تمام اعضاء سے ہوتا ہوا وریدوں کے ذریعے دل تک پہنچتا ہے اور پھر دل سے نکلنے والی شریانوں کے پھر تمام جسم میں چلا جاتا ہے۔ اس کی دھڑکن اگرترتیب میں ہے تو جسم کی تمام ترتیبات ٹھیک ہیں اگر اس کی دھڑکن میں کوئی تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے تو تمام جسم کا نظام تلپٹ ہو جاتا ہے۔ فی زمانہ اس کی بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں - جدید تحقیقات کے مطابق پوری دنیا میں دل کے مریضوں کی تعداد 20 فیصد سے زائد مانی جارہی ہے۔

قلب کیا ہے؟

عربی میں دل کو قلب کہا گیا ہے۔ صوفیا کے نزدیک یہ ایک استعارہ ہے حقیقتاً قلب کا تعلق اللہ رب العزت سے ہے۔ اوراس کا تعلق انسان کے باطنی اعمال اور کیفیات سے بھی ہے۔اسکے درست ہونے کو پورے بدن کا درست ہونا قرار دیا گیا ہے جیسا کہ مفہوم ارشاد نبوی علیہ السلام ہے:
" جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہے تو تمام جسم ٹھیک ہے
 اور اگر وہ خراب ہے تو تمام جسم خراب ہے ۔ خبردار رہو  کہ وہ قلب (دل) ہے۔"
مقام غور ہے کہ چاہے بیماری بدنی ہو یا روحانی اس کا ابتدائی مرکز دل (قلب)ہے جس کی خرابی سے تمام جسم میں خرابیاں پیدا ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
اور جس طرح ہم ظاہری اعتبار سے دل کی ممکنہ بیماریوں سے بچنے کے چارہ جوئی کرتے ہیں اور پرہیز وعلاج کا اہتمام کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ ہم اپنے قلب کی پاکیزگی، صفائی اور پرہیزگاری کا اہتمام کریں کیونکہ یہ جسم عارضی ہے اور اس کو لگنے والے مرض عارضی ان کا علاج اگر رہ بھی گیا تو موت تمام دنیاوی تکلیفوں سے چھٹکارا دلا دینے والی ہے۔
 جبکہ مرنے کے بعد آنے والا جہان عارضی نہیں اور نہ ہی اس کے انعامات یا تکالیف عارضی ہیں ۔ لہذا عارضی زندگی کی تکلیفوں سے بچنے کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کی زندگی کی تکلیفوں سے بچنے کے لیے سوچنا بھی ضروری ہے۔
اس بحث سے  ہم یہ بھی اخذ کرسکتے ہیں کہ دل ظاہری جسم ہے اور قلب اسکی روحانی حالت۔ یہ تخصیص صرف بات کو واضح کرنے کے لیے ہے ورنہ لفظی اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے
قلب کی بیماریوں سے بچنے کے علاج پہلے ہی بتا دیا گیا ہے

ہر شے( کو چمکانے )کے لیے صقالہ ہے
اور دل( کو چمکانے) کے لیے صقالہ اللہ کا ذکر ہے

 جس طرح امراض دل کی بہت ساری اقسام ہیں اور ان کے ماہر معالج دنیا میں ملتے ہیں اسی طرح امراض قلب کی بھی بہت ساری اقسام ہیں اوران کے معالج بھی ملتے ہیں۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم امراض جسمانیہ سے تندرستی کو ترجیح دیتے ہیں یا امراض روحانیہ سے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمارے قلوب کو ویسا کردے جیسا کہ اس کو مطلوب ہے ۔ آمین۔

12/07/2013

مرکزی اجسام یا اعضائے رئیسہ

0 تبصرے
طب اور روحانیت میں مرکزی اجسام جنہیں اعضائے رئیسہ کے نام سے بھی جاناجاتا ہے

طب میں                                                        روحانیت میں

دل                                                                  قلب 

دماغ                                                             انفس/ملائے اعلٰی

جگر                                                             روح

معدہ                                                              نفس

اور دیگر اجزاء بھی ایک خاص ترتیب میں باہم مشترک کیفیات لیے ہوئے

12/03/2013

بدنی بیماریوں اور روحانی بیماریوں کی اجمالی تقسیم (2)

0 تبصرے
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارا بدن اچھی غذائوں سے فائدہ حاصل کرتا ہے اور ناقص غذائیں ہمارے بدن کا حصہ بن اس کے لیےضعف اور بیماری کا باعث بنتی ہیں۔ اور جب بھی ہم کوئ غذا لیتے چاہے بہترین ہو یا ناقص وہ معدے میں جاتی ہے اور وہاں اس پر مختلف کیمیائی عوامل وقوع پذیر ہوتے ہیں جس کے بعد وہ ہمارے بدن کاجزو بنتی ہے۔ اگر غذا معتدل اور جسم کے مزاج کے موافق ہو تو اس جسم کو فائدہ حاصل ہوتا ہے اور ایسی غذا انسان کو قوت فراہم کرتی ہے۔ اور جیسا کہ ہم نے اپنے علماء سے سنا ہے کہ جب ہم غذا کا لقمہ منہ میں رکھتے ہیںتو وہ لقمہ اللہ سے اجازت کا طلٓب گار ہوتا ہے کہ ہمارے لیے صحت بنے یا بیماری۔
اگر اللہ کی طرف سے بیماری کا فیصلہ آجائے تو قیمتی سے قیمتی اور بہترین غذا انسان کے لیے زہر بن جاتی ہے۔ جیسا کہ ہمارا مشاہدہ کہ کچھ لوگوں کو ڈاکٹراورحکیم سب کچھ کھاناچھڑوا دیتے ہیں اور ان کا گذارا صرف معمولی دال دلیے پر ہوتا ہے اور اس کے علاوہ ہر شے نقصان دہ قرار پاتی ہے۔
چونکہ غذا معدے میں جانے کے بعد ہی انسان کے جسم کا جزو بنتی ہے اس معدہ ہی وہ مقام ہے جہاں سے بیماری یا صحت کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔
امراض جسمانیہ وروحانیہ کئی طرح کے ہوتے ہیں انہیں اجمالی طور پر دو بڑے حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ اندرونی امراض اور بیرونی امراض۔
بیرونی امراض کا اندازہ تو مریض کے ظاہری مشاہدہ سے کیا جاسکتا ہے جبکہ اندرونی امراض کو جاننے کے تفصیلی مذاکرے، مشاہدے وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
 حوادث کے علاوہ بدن کے اندرون میں پیدا ہونے والی اکثر بیماریوں کا مرکز  معدہ مانا جاتاہے۔ درد جگر ہو،ضعف دماغ یا عارضہ قلب ڈاکٹر یا حکیم کا پہلا سوال غذا کے متعلق ہی ہوتا ہے۔اسی بنیاد پر بدنی بیماریوں اور عوارض کا بنیادی مرکزمعدہ کو کہا جاتا ہے۔
ماہرین روحانیہ کے نزدیک امراض روحانیہ کا مرکز نفس کو کہا جاتا ہے اور نفس کا مقام معدہ کے عین نیچے ہے.


یہ نفس ہی ہے جس کی تحریک پر معدہ اچھی اور بہتر غذا کی خواہش رکھتا ہے۔ اور اسے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ غذا کے حصول کے کونسا طریقہ اختیا ر کیا جائے۔ یہ تو عقل ہے جو اس کی راہنمائی کرتی ہے۔
اللہ رب العزت نے عقل کو چوکیدار مقرر فرمایا ہے تاکہ معدہ اور نفس کی باہمی میل جول سے انسان ان کے قابو میں آکر کہیں غلط راہوں پرنہ چل کھڑاہو۔
امام غزالی نے عقل اور نفس کی مثال سوار اور گھوڑے کی دی ہے اگر گھوڑا طاقتورہو گا تو سوار کو گرادے گا اور اگرسوار طاقتور ہوگا تو گھوڑے کو اپنے راستے پر لے چلے گا ۔
نفس اندھیری راہوں کا مسافر ہے اسے بس اپنے مقصد کے حصول سے غرض ہوتی ہے اور اس کے طریقے سے نہیں چاہے غلط ہو یا ٹھیک۔ جبکہ عقل سلیم روح کی نمائندہ ہے اور اس کا تعلق آسمانوں سے اس لیے وہ آسمانی علوم کی روشنی میں اپنی راہ کا تعیین کرتی ہے اور صرف اسی طریقے اور ذریعے کو اختیا ر کرتی ہے جن میں علوم الٰہیہ اس کی راہنمائی کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو امراض روحانیہ سے محفوظ رکھتی ہے۔
جس طرح امراض جسمانیہ کا آغآز عموماً غذا کی بے اعتدالی سے ہوتا ہے اسی طرح روحآنی امراض کا آغاز نفس کی پسند پر چلنے سے ہوتاہے
ابتدا میں امراض جسمانیہ مفرد ہوتے ہیں اور مناسب علاج معالجہ سے قابو میں آجاتے ہیں اگر ان کے علاج میں کہیں غلطی ہوجائے یا دیر ہوجائے تو یہ مرکب صورت اختیار کرلیتے ہیں لیکن پھربھی ایک حد تک ماہر معالجین ان پر قابو پالیتے ہیں۔
اسی طرح امراض روحآنیہ بھی ابتدا میں مفرد ہوتے ہیں لیکن چونکہ ان پر ہماری توجہ اتنی نہیں ہوتی جتنی امراض بدنیہ پر، اس وجہ سے یہ مرکب در مرکب ہوجاتے ہیں اور ان میں سے بعض ایسی صورت اختیار کرلیتے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو مریض کی بجائے معالج تصورکرنےلگ جاتا ہےاوراس کا علاج ناممکن ہوجاتا ہے الا یہ کہ اللہ کی طرف  خصوصی رحمت ہوجائے۔
اور بعض دفعہ علاج کے دوران یہ امرض اپنی صورت بدل کرمعالج کو بھی دھوکہ دے سکتے ہیں۔اس کا علاج صرف وہی کرسکتا ہے جو علوم قرآن وسنت کا نہ صرف حقیقی عالم ہو بلکہ عاملِِِِِ کامل بھی ہو۔
عامل  بمعنی  ذاتی طور عمل کرنے والا قرآن وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے والا نہ کہ جھاڑ پھونک والا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں عاملین کاملین سے اپنے روحانی علاج کروانے کی تو فیق عنایت فرمائیں ۔ آمین۔

12/02/2013

بدنی امراض اور روحانی امراض کافرق

0 تبصرے

بدنی امراض اور روحانی امراض کافرق


بدنی امراض وہ ہیں جو ہمارے جسم کی اندرونی وبیرونی کیفیات یا حالات کی تبدیلی سے وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔

جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ہمارا مختلف عناصر کا مجموعہ ہے اور صحت ان عناصر کی اعتدالی حالت سے قائم رہتی ہے۔ ا ن عناصر میں مقدار یا کیفیت کی تبدیلی سے جسم کی کیفیت یا حالت میں تبدیلیا ں وقوع پذیر ہوتی ہیں اور ان تبدیلیوں کی کچھ بیرونی اور کچھ اندرونی وجوہات ہوتی ہیں۔ 
بیرونی وجوہات میں مادی اور غیر مادی دونوں قسم کے عناصر ملوث ہو سکتے ہیں جیسا کہ غذا میں ایسی اشیا ء استعمال کرنا جو طبیعت اور مزاج کے خلاف ہوں اور ان میں بے اعتدالی ،غیر پسندیدگی، مخالف مزاج یا دیگر حالات پائے جائیں۔
اور غیر مادی، ایسے حالات یا کیفیت میں کھانا کھانا جو طبیعت کے موافق نہ ہوں جیسا کہ غصے،غم اور تکلیف کی حالت میں کھانا کھانے سے غذا سے مثبت اثرات مرتب ہونے کی بجائے انسان جسم پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اسی وجہ سے ان حالات میں روزمرہ کی غذا لینے کی ممانعت کی جاتی ہے اور پہلے اپنے آپ کو ان کیفیات سے باہر لا کر پھر کھانا وغیرہ کھانے کی اجازت دی جاتی ہے۔
اور پھر اس چیز کی بھی تاکید کی جاتی ہے کہ ایسی غذا لی جائے جولطیف اور طبیعت کے موافق ہواور ایسی غذا سے روکا جاتاہے جس سے طبیعت ناموافق ہو۔ اسی لیے مرض کی حالت میں مریض کو ہلکی، زودہضم اورموافق غذاؤں کی تاکید کی جاتی ہے۔
زیادہ تراندرونی وجوہات بیرونی وجوہات کے تابع ہوتی ہیں اور بیرونی کیفیات یا حالات بدلنے سے جسم کے عناصر کی ترتیب سے خلل واقع ہو جاتا ہے ا اور بروقت مناسب تشخیص نہ ہونے کی وجہ اندرونی کیفیات سادہ نہیں رہ پاتیں بلکہ مرکب ہوجاتی ہیں اور اس میں تبدیلیوں کی ایک زنجیر بنتی چلی جاتی ہے اور مختلف امراض کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ 
یہ تو ایک سادہ سا بیان ہے تاکہ بدنی امراض کے وقوع پذیر ہونے بارے میں
مختصر ابتدائی حالات سے آگاہی ہو سکے۔
اور روحانی امراض ایسے ہیں کہ جن میں روح اپنی اصل سے ہٹنے اور بدنی کیفیات سے مغلوب ہونے لگتی ہے اور انسان اپنے اصلی مقام اور مکان دونوں سے غافل ہوجاتاہے۔
انسان کی روح بھی انسانی بدن کی طرح اندرونی وبیرونی ہمہ قسم کی کیفیات وحالات سے متاء ثر ہوتی ہے ۔ اور اس کی اندرونی کیفیات بھی بیرونی حالات و واقعات کی تبدیلیوں سے جنم لیتی ہیں اور یہ بھی جسمانی امراض کی طرح سادہ سے مرکب کاسفر طے کرنے لگتی ہیں۔ 
جس طرح کسی جسمانی مرض کا علاج ابتدا میں آسانی سے کیا جا سکتا ہے اسی طرح روحانی امراض کا علاج ابتدا میں آسانی سے ممکن ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ جسمانی امراض میں فوری علاج معالجہ کی فکر میں لگ جاتے ہیں اور روحانی امراض کو ہم مرض ہی نہیں سمجھتے بلکہ بعض روحانی امراض کو نا سمجھتے ہوئے خود اختیار کرلیتے ہیں اور اسی میں اپنی بڑائی خیال کرتے ہیں جو بجائے خود ایک شدید ترین روحانی مرض ہے اور اس کی اتنی صورتیں ہیں کہ بعض اوقات ایک کا علاج ہوتے ہوتے دوسری جنم لے لیتی ہے جس کی وجہ سے ایسے ا مراض کا علاج دشوار تر ہو جاتا ہے الاٌ یہ کہ اللہ کی طرف سے نظر کرم ہو جائے اور ہم پر اپنے روحانی امراض آشکارا ہوجائیں اور ہم اپنے علاج کی فکر میں لگ جائیں 
اگر غور کیا جائے تو در حقیقت کسی بھی معاشرہ میں بد امنی،بے سکونی، بے چینی اور دیگر تکلیف دینے والی کیفیات کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ معاشرہ بحیثت قوم اپنے روحانی امراض سے ناواقف اور بے بہرہ ہے۔ 
اگر آج ہم تھوڑا غور کرلیں اور اپنے اندرکی ان روحانی بیماریوں کو پہچان لیں اور اپنے علاج کی فکر کرلیں تو اللہ رب العزت سے امید ہے کہ ہمارے حالت بدل جائیں گے۔
یاد رہے یہ فیصلہ بھی اسی کا جو ہمارا تخلیق کا ر ہے

\" اِنّ اللہ لَایُغَیِّرُمَابِقَوم حَتّٰی یُغَیِّرُمَابِاَنفُسِھِم \"
اللہ ر ب العزت سے التجا ہے کہ ہمارے حال پہ کرم فرمائے اور ہم پر ہمارے روحانی امراض کو آشکار کردے اور ان سے بچنے کے اسباب مرحمت فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین بوجھک الکریم۔