12/02/2013

بدنی امراض اور روحانی امراض کافرق

0 تبصرے

بدنی امراض اور روحانی امراض کافرق


بدنی امراض وہ ہیں جو ہمارے جسم کی اندرونی وبیرونی کیفیات یا حالات کی تبدیلی سے وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔

جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ہمارا مختلف عناصر کا مجموعہ ہے اور صحت ان عناصر کی اعتدالی حالت سے قائم رہتی ہے۔ ا ن عناصر میں مقدار یا کیفیت کی تبدیلی سے جسم کی کیفیت یا حالت میں تبدیلیا ں وقوع پذیر ہوتی ہیں اور ان تبدیلیوں کی کچھ بیرونی اور کچھ اندرونی وجوہات ہوتی ہیں۔ 
بیرونی وجوہات میں مادی اور غیر مادی دونوں قسم کے عناصر ملوث ہو سکتے ہیں جیسا کہ غذا میں ایسی اشیا ء استعمال کرنا جو طبیعت اور مزاج کے خلاف ہوں اور ان میں بے اعتدالی ،غیر پسندیدگی، مخالف مزاج یا دیگر حالات پائے جائیں۔
اور غیر مادی، ایسے حالات یا کیفیت میں کھانا کھانا جو طبیعت کے موافق نہ ہوں جیسا کہ غصے،غم اور تکلیف کی حالت میں کھانا کھانے سے غذا سے مثبت اثرات مرتب ہونے کی بجائے انسان جسم پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اسی وجہ سے ان حالات میں روزمرہ کی غذا لینے کی ممانعت کی جاتی ہے اور پہلے اپنے آپ کو ان کیفیات سے باہر لا کر پھر کھانا وغیرہ کھانے کی اجازت دی جاتی ہے۔
اور پھر اس چیز کی بھی تاکید کی جاتی ہے کہ ایسی غذا لی جائے جولطیف اور طبیعت کے موافق ہواور ایسی غذا سے روکا جاتاہے جس سے طبیعت ناموافق ہو۔ اسی لیے مرض کی حالت میں مریض کو ہلکی، زودہضم اورموافق غذاؤں کی تاکید کی جاتی ہے۔
زیادہ تراندرونی وجوہات بیرونی وجوہات کے تابع ہوتی ہیں اور بیرونی کیفیات یا حالات بدلنے سے جسم کے عناصر کی ترتیب سے خلل واقع ہو جاتا ہے ا اور بروقت مناسب تشخیص نہ ہونے کی وجہ اندرونی کیفیات سادہ نہیں رہ پاتیں بلکہ مرکب ہوجاتی ہیں اور اس میں تبدیلیوں کی ایک زنجیر بنتی چلی جاتی ہے اور مختلف امراض کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ 
یہ تو ایک سادہ سا بیان ہے تاکہ بدنی امراض کے وقوع پذیر ہونے بارے میں
مختصر ابتدائی حالات سے آگاہی ہو سکے۔
اور روحانی امراض ایسے ہیں کہ جن میں روح اپنی اصل سے ہٹنے اور بدنی کیفیات سے مغلوب ہونے لگتی ہے اور انسان اپنے اصلی مقام اور مکان دونوں سے غافل ہوجاتاہے۔
انسان کی روح بھی انسانی بدن کی طرح اندرونی وبیرونی ہمہ قسم کی کیفیات وحالات سے متاء ثر ہوتی ہے ۔ اور اس کی اندرونی کیفیات بھی بیرونی حالات و واقعات کی تبدیلیوں سے جنم لیتی ہیں اور یہ بھی جسمانی امراض کی طرح سادہ سے مرکب کاسفر طے کرنے لگتی ہیں۔ 
جس طرح کسی جسمانی مرض کا علاج ابتدا میں آسانی سے کیا جا سکتا ہے اسی طرح روحانی امراض کا علاج ابتدا میں آسانی سے ممکن ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ جسمانی امراض میں فوری علاج معالجہ کی فکر میں لگ جاتے ہیں اور روحانی امراض کو ہم مرض ہی نہیں سمجھتے بلکہ بعض روحانی امراض کو نا سمجھتے ہوئے خود اختیار کرلیتے ہیں اور اسی میں اپنی بڑائی خیال کرتے ہیں جو بجائے خود ایک شدید ترین روحانی مرض ہے اور اس کی اتنی صورتیں ہیں کہ بعض اوقات ایک کا علاج ہوتے ہوتے دوسری جنم لے لیتی ہے جس کی وجہ سے ایسے ا مراض کا علاج دشوار تر ہو جاتا ہے الاٌ یہ کہ اللہ کی طرف سے نظر کرم ہو جائے اور ہم پر اپنے روحانی امراض آشکارا ہوجائیں اور ہم اپنے علاج کی فکر میں لگ جائیں 
اگر غور کیا جائے تو در حقیقت کسی بھی معاشرہ میں بد امنی،بے سکونی، بے چینی اور دیگر تکلیف دینے والی کیفیات کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ معاشرہ بحیثت قوم اپنے روحانی امراض سے ناواقف اور بے بہرہ ہے۔ 
اگر آج ہم تھوڑا غور کرلیں اور اپنے اندرکی ان روحانی بیماریوں کو پہچان لیں اور اپنے علاج کی فکر کرلیں تو اللہ رب العزت سے امید ہے کہ ہمارے حالت بدل جائیں گے۔
یاد رہے یہ فیصلہ بھی اسی کا جو ہمارا تخلیق کا ر ہے

\" اِنّ اللہ لَایُغَیِّرُمَابِقَوم حَتّٰی یُغَیِّرُمَابِاَنفُسِھِم \"
اللہ ر ب العزت سے التجا ہے کہ ہمارے حال پہ کرم فرمائے اور ہم پر ہمارے روحانی امراض کو آشکار کردے اور ان سے بچنے کے اسباب مرحمت فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین بوجھک الکریم۔

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔