جس طرح جسمانی اور روحانی غذائیں جدا جدا ہیں اسی طرح ان کی تشخیص اورعلاج معالجہ میں بھی فرق پایا جاتا ہے لیکن کچھ چیزیں مشترکہ بھی ہیں۔ کیونکہ بعض روحانی امراض کی وجہ سے جسمانی امراض پیدا ہوتے ہیں ان دونوں کا علاج اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔
جبکہ ایسا نہ ہونے کے برابر ہےکہ کسی جسمانی مرض کی وجہ سے کوئی روحانی مرض پیدا ہو۔ بلکہ احادیث مقدسہ کی روشنی میں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ بعض جسمانی امراض کو بعض روحانی امراض کے لیے بطور علاج استعمال کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ جب بندہ جسمانی طور پربیمار ہوتا ہے تو اس کیفیات میں یک سوئی بڑھ جاتی اور اس میں رجوع اور توبہ کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے اس کیفیت سے کوئی ماہر روحانی معالج فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے مریض کا روحانی علاج بھی کرسکتا ہے اور اسکی روح کو مزید ترقیات مل سکتی ہیں۔ بلکہ پائے کے روحانی معالج جو جسمانی امراض اور کیفیات کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں روحانی مرض کی نوعیت کے اعتبار سے اپنے مریض(مرید)کے اندر جسمانی مرض پیدا کر کے اس کے ذریعہ سے روحانی وجسمانی دونوں علاج بھی کرتے ہیں ۔
اب ایسے روحانی معالج قسمت والوں کو ہی میسر آتے ہین جو کہ ان کی روحانی وجسمانی دونوں کیفیات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا علاج کریں۔
جبکہ ایسا نہ ہونے کے برابر ہےکہ کسی جسمانی مرض کی وجہ سے کوئی روحانی مرض پیدا ہو۔ بلکہ احادیث مقدسہ کی روشنی میں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ بعض جسمانی امراض کو بعض روحانی امراض کے لیے بطور علاج استعمال کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ جب بندہ جسمانی طور پربیمار ہوتا ہے تو اس کیفیات میں یک سوئی بڑھ جاتی اور اس میں رجوع اور توبہ کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے اس کیفیت سے کوئی ماہر روحانی معالج فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے مریض کا روحانی علاج بھی کرسکتا ہے اور اسکی روح کو مزید ترقیات مل سکتی ہیں۔ بلکہ پائے کے روحانی معالج جو جسمانی امراض اور کیفیات کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں روحانی مرض کی نوعیت کے اعتبار سے اپنے مریض(مرید)کے اندر جسمانی مرض پیدا کر کے اس کے ذریعہ سے روحانی وجسمانی دونوں علاج بھی کرتے ہیں ۔
اب ایسے روحانی معالج قسمت والوں کو ہی میسر آتے ہین جو کہ ان کی روحانی وجسمانی دونوں کیفیات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا علاج کریں۔
اس سلسلہ میں کچہ غلط فہمیاں عوام الناس میں پائی جاتی ہیں اور وہ بعض نہ سمجھ آنے والی کیفیات کو روحانی امراض سمجھ لیتے ہیں اور جاہل عامل اورنام نہاد روحانی معالجوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ایسی کیفیات گرچہ روحانی امراض کا عکس یا اثرات تو ہو سکتے ہیں مگربذات خود روحانی مرض نہیں ہوتے ضرورت صرف صحیح تشخیص کی ہوتی ہے۔اور اس کی صحیح تشخیص صرف قرآن و حدیث کا عالم باعمل اور پرہیز گارعامل ہی کر سکتا ہے۔
اور جس طرح جسمانی امراض میں ڈاکٹروں اور حکیموں کے بتائے گئے طریقہ کار اور پرہیز پر عمل کرنا ضروری ہے روحانی امراض اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ معالج کی ہدایات پر عمل درآمد کیا جائے۔
جسمانی امراض سے بچنے کی لیے جس طرح پرہیز ضروری ہے ویسے ہی پرہیز گاری اختیار کر کے بندہ روحانی امراض سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
اللہ سے دعاہے کہ وہ ہمیں جسمانی وروحانی دونوں طرح کے امراض سے محفوظ رکھے اور حقیقی روحانی معالجین سے فیضیاب ہونے کی تو فیق عنایت فرمائے۔آمین۔
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔