11/30/2013

بدنی وروحانی صحت کے ذرائع(2)

1 تبصرے
گزشتہ سے پیوستہ
گزشتہ پوسٹ میں بات چل رہی تھی کہ انسان اپنی جسمانی صحت کا زیادہ خیال رکھتا ہے اور روحانی صحت کی طرف سے یکسرغافل ہے لہذا اسےچاہیے کہ جتنا اپنی جسمانی صحت کا خیال رکھتا ہے اس سے کہیں زیادہ اپنی روحانی صحت کی فکر کرے۔
ایک اللہ والے کا قول ہے،اور یہ قول ہماری زندگی کی حقیقی ترجمانی بھی کرتا ہے،  
              "گندگی ڈالنے کے لیے محنت نہیں کرنا پڑتی آدمی صرف
               صفائی کرنا چھوڑ دے تو گندگی پھیلنا شروع ہو جائے گی
              جبکہ صفائی کے لیے محنت،وقت اور قوت درکار ہوتی ہے
              جسکے بغیر صفائی ناممکن ہے۔"
اور ہمارا یہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ہم جس کام میں کوتاہی برتتے ہیں اس کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور جس کام کو یکسوئی،لگن،استقلال اور استقامت سے کرنا شروع کردیں اللہ رب العزت اس کام میں برکت ڈال دیتے ہیں۔
اسی بات کو جناب نبی کریم صلٰی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ارشاد سے اس طرح اخذ کیا جاسکتا ہے
                     بہترین عمل وہ ہے جو مستقل ہو گرچہ تھوڑا ہو
جیسا کہ جسم کو پاک صاف اور تندرست رکھنے کے لیے ہم روزانہ صفائی اور نہانے دھونے کا اہتمام کرتے ہیں اور بیماری سے بچنے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کرتے ہیں اور پرہیز کو علاج سے بہتر سمجھتے ہیں ۔اور اس سلسلہ میں ماہرین سے مشورہ بھی کرتے رہتے ہیں۔
اسی طرح ہماری روح کی پاکیزگی اس کہیں زیادہ توجہ کی مستحق ہےاور اس کے تمام ذرائع جسمانی پاکیزگی سے کہیں زیادہ آسانی سے دستیاب ہیں بات فقط ہمت،یکسوئی،استقلال اور استقامت کی ہے۔ اور پرہیزگاری پرہیز سے کہیں بڑھ کر ہمارے لیے ضروری ہے۔
بقول بابا جی اشفاق احمد


اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پرہیزگاری کے حقیقی ذرائع جو کہ خالق حقیقی نے ہمیں عا فرمائے ہیں اختیار کرنے اور ان سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

11/29/2013

بدنی وروحانی صحت کےذرائع (1)

0 تبصرے
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی۔ اور دور حاضر میں انسان نے ریسرچ کرکے ان تمام اجزاء کی تفصیل معلوم کرنے کی سعی کی ہے جن پر جسم انسانی مشتمل ہے۔ اس کی تفصیل گذشتہ پوسٹ " بدن کی کیمیاوی ترکیب" میں اجمالاً دی گئی ہے۔ 
ان تمام اجزا ء کے تفصیلی جائزے سے مدد لے کر انسان کو تمام ممکنہ بیماریوں سے بچانے کی کوششیں جاری ہیں ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔  جیسا جدید ترین تحقیقات میں انسان کے DNA کے موجود ریکارڈ کو ڈی کوڈ کر کے اسے پیدائش سے قبل ہی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کی سعی بھی جاری ہے ۔ ان تمام اجزاء کا تعلق زمین سے ہے۔ گویا انسان کا جسم زمینی ہے اس لیے اس کی تمام بنیادی ضروتیں غذا اور صحت وغیرہ زمینی اجزاء سے پورے ہوتے ہیں۔اور ان میں پائی جانے کسی بھی قسم کی کمی بیشی کو زمینی ذرائع سے ہی پورا کیا جاتا ہے۔
لیکن بحیثیت انسان ہمیں یہ جان لینا چاہیئے کہ ہم جتنی بھی کوشش کرلیں اور ترقی کی جتنی مرضی منازل طے کرلیں Ultimately ہماری بنیادی ترکیب بنانے والا ہی ہمارا بہتر سوچ سکتا ہے۔ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ کوئی بھی تخلیق کار ہی صرف اپنی تخلیق کی کمیوں، کوتاہیوں اور  ضرورتوں سے بہتر طور پر آگاہ ہو سکتا ہے۔
انسان صرف ایک ظاہری صورت کا نام نہیں بلکہ یہ روح اور جسم دونوں کا مرکب ہے اور جسم کی ظاہری ترقی اور صحت انسان کو نفس مطمئنہ کے درجہ تک نہیں پہنچا سکتی۔ بلکہ اس کے لیے ظاہری صحت اور خوبصورتی سے زیادہ اہم اندر یعنی روح کی صحت اور خوبصورتی ہے۔ 
جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ روح امر ربی ہے اور اس کا تعلق اوپر یعنی آسمانوں سے ہے لحاظہ اس کی ضرورتیں صرف آسمانی غذا سے پوری ہوسکتی ہیں۔ 
روح کی غذا اور اسکی صحت کے لیے ضروری ذرائع اللہ رب العزت نے اس وقت سے ہی مہیا کر رکھے ہیں جب سے اس انسان کو تخلیق کیا ہے۔
ا ب یہ انسان کے ذمہ ہے جس طرح وہ اپنے جسم کی صحت اور تندرستی کے لیے ذرائع تلاش کرتا ہے اور ان سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کے لیے اسے اچھی خاصی تگ ودو کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح وہ اپنی روح کی خوراک اور صحت کے لیے تگ ودو کرے یاد رہے کہ روح کی خوراک اور صحت کے ذرائع زیادہ آسانی سے دستیا ب ہیں لیکن ہم ہی اس پر غور نہیں کرتے۔" 
                   " وَلَقَد یَسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر"
اللہ رب العزت سے دعا ہے ہمیں روح کی تندرستی کے لیے تگ و دو کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین۔


11/28/2013

بدن کی کیمیاوی ترکیب

1 تبصرے
طب قدیم اور  یونانی میں بدن کے اجزئے ترکیی چاربنیادی عناصر کو مانا گیا
1 ہوا
2 پانی
3 مٹی اور 
4  آگ
چونکہ یہ بنیادی اور نظریاتی اجزائے ترکیی مانے گئے اور اس پر مزید ریسرچ اطبائے قدیم نے نہ کی اب اس کام کا بیڑا
 طب جدید نے اٹھایا اور 100 سے زائد عناصر دریافت کرلیے اور کا بدن انسانی میں عمل دخل دریافت کیا جس کی تقسیم حسب ذیل گراف سے ظاہر ہے



اور اس کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں


بشکریہ وکی پیڈیا

بدن کے اجزائے ترکیبی کی کیمیاوی تقسیم

Atomic
 number
Element Fraction of mass[3][4][5][6][7][8] Mass (kg)[9] Atomic percent Group
8 Oxygen 0.65 43 24 16
6 Carbon 0.18 16 12 14
1 Hydrogen 0.1 7 63 1
7 Nitrogen 0.03 1.8 0.58 15
20 Calcium 0.014 1 0.24 2
15 Phosphorus 0.011 0.78 0.14 15
19 Potassium 2.5×10−3 0.14 0.033 1
16 Sulfur 2.5×10−3 0.14 0.038 16
11 Sodium 1.5×10−3 0.1 0.037 1
17 Chlorine 1.5×10−3 0.095 0.024 17
12 Magnesium 500×10−6 0.019 0.007 2
26 Iron* 60×10−6 0.0042 0.00067 8
9 Fluorine 37×10−6 0.0026 0.0012 17
30 Zinc 32×10−6 0.0023 0.00031 12
14 Silicon 20×10−6 0.001 0.0058 14
37 Rubidium 4.6×10−6 0.00068 0.000033 1
38 Strontium 4.6×10−6 0.00032 0.000033 2
35 Bromine 2.9×10−6 0.00026 0.00003 17
82 Lead 1.7×10−6 0.00012 4.5E-06 14
29 Copper 1×10−6 0.000072 1.04E-05 11
13 Aluminium 870×10−9 0.00006 0.000015 13
48 Cadmium 720×10−9 0.00005 4.5E-06 12
58 Cerium 570×10−9 0.00004
56 Barium 310×10−9 0.000022 1.2E-06 2
50 Tin 240×10−9 0.00002 6.00E-07 14
53 Iodine 160×10−9 0.00002 7.50E-07 17
22 Titanium 130×10−9 0.00002 4
5 Boron 690×10−9 0.000018 0.000003 13
34 Selenium 190×10−9 0.000015 4.50E-08 16
28 Nickel 140×10−9 0.000015 1.5E-06 10
24 Chromium 24×10−9 0.000014 8.90E-08 6
25 Manganese 170×10−9 0.000012 1.5E-06 7
33 Arsenic 260×10−9 0.000007 8.90E-08 15
3 Lithium 31×10−9 0.000007 1.5E-06 1
80 Mercury 190×10−9 0.000006 8.90E-08 12
55 Caesium 21×10−9 0.000006 1.00E-07 1
42 Molybdenum 130×10−9 0.000005 4.50E-08 6
32 Germanium 5×10−6 14
27 Cobalt 21×10−9 0.000003 3.00E-07 9
51 Antimony 110×10−9 0.000002 15
47 Silver 10×10−9 0.000002 11
41 Niobium 1,600×10−9 0.0000015 5
40 Zirconium 6,000×10−9 0.000001 3.00E-07 4
57 Lanthanum 1,370×10−9 8.00E-07
52 Tellurium 120×10−9 7.00E-07 16
31 Gallium 7.00E-07 13
39 Yttrium 6.00E-07 3
83 Bismuth 5.00E-07 15
81 Thallium 5.00E-07 13
49 Indium 4.00E-07 13
79 Gold 140×10−9 2.00E-07 3.00E-07 11
21 Scandium 2.00E-07 3
73 Tantalum 2.00E-07 5
23 Vanadium 260×10−9 1.10E-07 1.20E-08 5
90 Thorium 1.00E-07
92 Uranium 1.3×10−9 1.00E-07 3.00E-09
62 Samarium 5.00E-08
74 Tungsten 2.00E-08 6
4 Beryllium 50×10−12 3.60E-08 4.50E-08 2
88 Radium 1×10−19 3.00E-14 1.00E-19 2
84 Polonium 6.8e-15[11] 16

*Iron = ~3 g in men, ~2.3 g in women

11/26/2013

امراض جسمانیہ وروحانیہ سے حفاظت

2 تبصرے
ہرانسان اپنے آپ کو ہمہ قسم کی جسمانی وروحانی تکالیف سے محفوظ رکھنا چاہتاہے۔
 بدن کی اندرونی وبیرونی حفاظت کے لیے وہ تمام قسم کے ذرائع استعمال کرتا ہے۔
جسم کی بیرونی حفاظت کے لیے وہ لباس، خوراک ،ادویات اور کاسمیٹک وغیرہ استعمال کرتا ہے جبکہ اندرونی حفاظت کے لیے صاف ستھری اور بہترین غذا، پھل وغیرہ استعمال کرتا ہےاور بوقت ضرورت ڈاکٹرز، سپیشلسٹس اور حکماء وغیرہ کی خدمات حاصل کرتا ہے اوراس ضمن میں اپنے بزرگوں کے تجربات سے بھی مستفید ہوتاہے اگرخدانخواستہ کسی معمولی مرض کا بھی اندیشہ ہو تو فوراً علاج کی فکر کرتاہے۔
اس کے برعکس روحانی امراض کے سلسلہ میں انسان انتہائی غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتا ہے جسکی وجہ سے بعض اوقات وہ گناہوں کے قعر مذلت میں جا گرتا اور اسے احساس تک نہیں ہوتا۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ حقیقی امراض روحانیہ کو امراض روحانیہ نہیں سمجھتا جبکہ بعض نہ سمجھ آنے والے امراض جسمانیہ یا پھر امراض روحانیہ کے عکس سے پیدا ہونے والے امراض کو امراض روحانیہ سمجھ بیٹھتا ہے اور ایسے لوگوں کے ہاتھ جا چڑھتا ہے جو کہ کہ خیال کو حقیقت کا روپ دکھانے کے ماہر ہوتے ہیں اور پھر اس کو طول دیکر مال بنانے کے ہنر میں یکتا ہوتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اول تو بندہ خود اپنا تجزیہ کرے کہ وہ کون سا ایسا عمل کرنے لگا ہے یا پھر کون سا ایسا عمل ہے جس کو ترک کرنے کے باعث اس کی کیفیات میں تبدیلی واقع ہوئی ہےاور مرض پیدا ہوا ہے۔ اور پھر اس کی تجدید کرے اگر کسی عمل کو کرنے سے تکلیف آئی ہے تو اس عمل کی تحقیق کرے کہ اس میں کیا خامی ہے جس کی وجہ سے نئی کیفیات پیدا ہوئی ہیں اور پھر اس خامی کو دور کرے۔ اسی طرح اگر کسی عمل کے ترک سے تکلیف آئی ہے تو اس کا ازالہ کرے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بدنی علاج کا بندوبست رکھے۔
اگر بندہ کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کر سکے تو پھر اللہ ہی اس کا حا فظ ہے۔ اگر کسی سے مشورہ کی ضرورت پیش آئے تو اول کوشش کرے کہ ایسا آدمی مل جائے جو اس راہ گذر سے گذر چکا ہو اور اس کے نشیب وفراز اور پیچ وخم سے بخوبی واقف ہو جیسا کا امراض بدنیہ میں ہم کسی سپیشلسٹ سے مشورہ ضروری خیال کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ وظائف پر بھروسہ کرنے سے کام  تو بن سکتا ہے مگر اس سے مزید پیچیدگی کا اندیشہ بھی ہے۔ لحاظہ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی ماہر امراض روحانیہ جو کہ قرآن وسنت کا عامل اور انہی کے مطابق علاج معالجہ کے فن پرعبور رکھتا ہو اسی سے مشور ہ کرے اور اگر ممکن ہو تو اسی سے علاج کروائے۔ 
جس طرح امراض جسمانیہ میں بندہ کا خود تگ ودو کرنا اور علاج معالجہ وپرہیز کا خیال رکھنا ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ امراض روحانیہ میں توجہ کی ضرورت ہے۔
فی زمانہ ماہرین نفسیات بھی اس طرح کے کام کرتے نظر آتے ہیں اگر یہی ماہرین اپنے فن کو قرآن وسنت کی روشنی سے صیقل کرلیں تو سونے پر سہاگہ ہو گا کیونکہ سابقہ ادوار کے تماتر ماہرین امراض روحانیہ اپنے اپنے دور ماہر نفسیات بھی ہوا کرتے تھے تاریخ اس کی شاہد ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام امراض روحانیہ وجسمانیہ سے محفوظ فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین بوجھک الکریم۔

11/23/2013

جسمانی و روحانی امرض کا باہمی ربط

0 تبصرے
جس طرح جسمانی اور روحانی غذائیں جدا جدا ہیں اسی طرح ان کی تشخیص اورعلاج معالجہ میں بھی فرق پایا جاتا ہے لیکن کچھ چیزیں مشترکہ بھی ہیں۔ کیونکہ بعض روحانی امراض کی وجہ سے جسمانی امراض پیدا ہوتے ہیں ان دونوں کا علاج اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔
جبکہ ایسا نہ ہونے کے برابر ہےکہ کسی جسمانی مرض کی وجہ سے کوئی روحانی مرض پیدا ہو۔ بلکہ احادیث مقدسہ کی روشنی میں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ بعض جسمانی امراض کو بعض روحانی امراض کے لیے بطور علاج استعمال کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ جب بندہ جسمانی طور پربیمار ہوتا ہے تو اس کیفیات میں یک سوئی بڑھ جاتی اور اس میں رجوع اور توبہ کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے اس کیفیت سے کوئی ماہر روحانی معالج فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے مریض کا روحانی علاج بھی کرسکتا ہے اور اسکی روح کو مزید ترقیات مل سکتی ہیں۔ بلکہ پائے کے روحانی معالج جو جسمانی امراض اور کیفیات کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں روحانی مرض کی نوعیت کے اعتبار سے اپنے مریض(مرید)کے اندر جسمانی مرض پیدا کر کے اس کے ذریعہ سے روحانی وجسمانی دونوں علاج بھی کرتے ہیں ۔
 اب ایسے روحانی معالج قسمت والوں کو ہی میسر آتے ہین جو کہ ان کی روحانی وجسمانی دونوں کیفیات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا علاج کریں۔
اس سلسلہ میں کچہ غلط فہمیاں عوام الناس میں پائی جاتی ہیں اور وہ بعض نہ سمجھ آنے والی کیفیات کو روحانی امراض سمجھ لیتے ہیں اور جاہل عامل اورنام نہاد روحانی معالجوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ایسی کیفیات گرچہ روحانی امراض کا عکس یا اثرات تو ہو سکتے ہیں مگربذات خود روحانی مرض نہیں ہوتے ضرورت صرف صحیح تشخیص کی ہوتی ہے۔اور اس کی صحیح تشخیص صرف قرآن و حدیث کا عالم باعمل اور پرہیز گارعامل ہی کر سکتا ہے۔
اور جس طرح جسمانی امراض میں ڈاکٹروں اور حکیموں کے بتائے گئے طریقہ کار اور پرہیز پر عمل کرنا ضروری ہے روحانی امراض اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ معالج کی ہدایات پر عمل درآمد کیا جائے۔
جسمانی امراض سے بچنے کی لیے جس طرح پرہیز ضروری ہے ویسے ہی پرہیز گاری اختیار کر کے بندہ روحانی امراض سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
اللہ سے دعاہے کہ وہ ہمیں جسمانی وروحانی دونوں طرح کے امراض سے محفوظ رکھے اور حقیقی روحانی معالجین سے فیضیاب ہونے کی تو فیق عنایت فرمائے۔آمین۔

11/20/2013

جسمانی و روحانی امراض کی تقسیم(1(

0 تبصرے
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جسم  کی زیادہ تر ضرورتیں ظاہری اسباب سے پوری ہوتی ہیں۔ جسم کی بنیادی ضرورتیں بھوک، پیاس اورشہوت  ہیں بھوک کھانے سے، پیاس پینے اور شہوت اسکے دستیاب ذرائع سے پوری ہوتی ہے۔ اگر یہ تمام ضرورتیں حلال اور پاکیزہ ذرائع سے پوری کی جائیں تو جسم کو توانا صحت مند اور خوبصورت بناتی ہیں اور روح کی تقویت و بلندی درجات کا باعث بنتی ہیں۔  اور اس کے بر عکس ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناجائز اور غلط ذرائع استعمال کیے جائیں تو جسمانی و روحانی دونوں طرح کے امراض کی پیدائش کا ذریعہ بنتے ہیں۔
جب بھوک ، پیاس اور شہوت پوری کرنے کے لیے ناجائزذرائع ضرورت سے زیادہ دستیاب ہوں اور ان کے حصول میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو تو انسان میں درندوں والی خصلتیں بیدار ہونے لگتی ہیں اور اس کا جسم جسمانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ روحانی امراض کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ 
ایک بزرگ کا قول ہے 
" جسمانی امراض کی مثال  بیروں سے بھرےایک برتن کی سی ہے جبکہ روحانی امراض کی مثال تِلوں سے بھرے برتن کی ہے"
گویا جسمانی امراض معمولی نگہداشت سے قابو میں لائے جا سکتے ہیں جبکہ روحانی امراض کے لئے معالج کا حقیقی معنوں میں سپیشلسٹ ہونا ضروری ہے ۔جسمانی بیماریاں غذا کے ردو بدل اور کمی بیشی سے دور کی جاسکتی ہیں اور یہ بیماریاںمعمولی علاج معالجے سے دور ہو جاتی ہیں۔ اور یہ دوبارہ کم ہی کسی انسان کو لگتی ہیں جبکہ روحانی بیماریوں کا علاج کسی حقیقی معالج روحانی سے مستقلا کروانا پڑتا ہے بعض اوقات ظاہری طور انسان ان سے خود کو پاک صاف تصور کرتا ہے لیکن یہ اتنی جلدی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں اور کسی نہ کسی شکل میں باقی رہ جاتی ہیں الا یہ کہ اللہ رب العزت کا خاص کرم ہو جائے۔ اور ایسا صرف ان زمانوں میں نظر آتا ہے جب تعلیمات نبویہ علیہ الصلوۃ والسلام عام تھیں اور عام مسلمانوں میں اس کا ذوق و شوق تھا اب بھی اس کی مثالیں موجودہیں مگر "الا قلیل"
جسمانی بیماریوں کے معالج تو عام ملتے ہیں مگر حقیقی روحانی معالج پارس اورگوہر نایاب ہیں جو قسمت والوں کے ہاتھ ہی لگتے ہیں جس طرح اس دور جدید میں امراض جسمانیہ کے لیے ہر ایک شعبے کے اندر مزید تقسیم پائی جاتی ہے اور ان کےلیےسپیشلسٹ ڈھونڈے جاتے ہیں۔ اسی طرح روحانی امراض کے اندربھی یہ تقسیم پائی جاتی ہے اور زمانہ قدیم سے ہر ہر شعبے ماہر معالج بھی پائے جاتے ہیں۔
 جس طرح امراض جسمانیہ میں کچھ امراض ظاہری ہوتے ہیں اور ان کی تشخیص اور معالجہ آسان ہوتا ہے جیسے نزل، زکام اور بخار وغیرہ اور کچھ مخفی جن کو مختلف ٹیسٹ وغیرہ کی مدد سے معلوم کیا جاتاہے اور ہر مرض کا ماہر معالج علیحدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح کی تقسیم امراض روحانیہ میں بھی ہے ۔  کمی صرف درست تلاش اور درست علاج کی ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا کی ہم سب کو امراض روحانیہ وجسمانیہ سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔

11/18/2013

روحانی غذا کے اثرات

1 تبصرے
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اگر ہماری روز مرہ کی غذا جو ہم اپنے زندہ رہنے اور جسم کی تقویت کے لیےاستعمال کرتے ہیں پاکیزہ اور حلال ہوگی تو جسم کے ساتھ ساتھ روح کو بھی قوت میسر آئے گی۔ اگر ہماری جسمانی غذا حلال اور پاکیزہ ہوگی تو ہماری روحانی غذا اپنا بھرپور اثر دکھائے گی۔ اس کی مثال حضرت سلطان باہو رح کے اس شعر میں موجود ہے
" کوڑے کوہ مٹھے نہ ہوندے   بھانویں سے من کھنڈاں پائیےہُو"
یعنی اگر پانی کا قدرتی ذائقہ ہی کڑوا ہے تو جتنی مرضی میٹھا ڈال لیں اس کی کڑواہٹ ختم نہیں ہو سکتی۔ گویا روحانی غذا اسی وقت اپنا اثر دخھائے گی جب جسمانی غذا سے جسم حلال اور پاکیزہ طریقے سے نشوونما پا چکا ہو گا۔ 
روحانی غذا اللہ رب العزت کا ذکر ہے اس کے فوائد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے اپنے جسم اور دل کو کو اس قدر پاکیزہ کرلیا جائے کہ وہ روحانی غذا سے مرتب ہونے والے اثرات کا متحمل ہو سکے۔ اور ان انوارات کو جذب کر سکے جو اللہ رب العزت کا ذکر کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔اس کی مثال برتن سے بھی دی جاتی ہے جو کہ گندگی سے اٹا پڑا ہو اور روحانی غذا کی مثال دودھ کی ہے اب کون عقلمند اس گندگی سے بھرے برتن میں دودھ ڈالے گا ۔
جب جسم اور روح پاکیزہ اور صاف ہو نگے تو اس پر اللہ کی خصوصی رحمتوں اور برکات کا نزول ہو گا ۔ اور انسان کی دنیا کے ساتھ ساتھ اسکی آخرت بھی سنورجائے گی۔ابتدا تو مشکلات سے بھرپور ہے لیکن اللہ کریم کی مہربانی سے استقلال اور جوانمردی سے اس راہ پر ڈٹے رہنے سے انسان اس کے اثرات خود بھی محسوس کرتاہے اور کبھی کبھی دوسرے بھی محسوس کرلیتے ہیں۔
اللہ رب العزت ہمیں اپنے برتن صاف رکھنے کی توفیق عنایت فرمائیں اور جائز وحلال غذا وافر مقدار میں عطا فرمائیں ۔آمین۔

11/17/2013

غذا کے جسم پر اثرات

1 تبصرے
جب بھی ہم غذا کے حصول کے لیےکوشاں ہوتے ہیں تو ہماری کوشش ہوتی ہے ہمیں بہترین ، اچھی اور اعلٰی غذا میسر آئے اوراگرہماری توجہ اپنی روح کی صحت کی جانب بھی ہو تو  اس کے ساتھ ساتھ ہم غذا کی پاکیزگی اور حلال ہونے کی جستجو بھی کرتےہیں۔
اچھی صاف ستھری پاکیزہ اور حلال غذا نہ صرف ہمارے بدن کو طاقت دیتی ہے بلکہ اسے تندرست وتوانا رکھنے کے ساتھ ساتھ روح کی قوت اور طاقت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ حلال اور پاکیزہ غذا گر چہ کم ہی کیوں نہ ہو اس سے انسان کو صحت کے ساتھ قلبی وذہنی سکون بھی میسرآتا ہے اور عبادات میں بھی مزا آتا ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں اسلام کی تاریخ میں نمایاں طور پہ ملتی ہیں۔
اچھی اور پاکیزہ غذانہ صرف بدن کو قوت دیتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے انسان جملہ جسمانی و روحانی امراض سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ اور اس کےبدن اور روح کے اعمال وافعال درست طریقہ سے سرانجام پاتے ہیں۔
اچھی اورپاکیزہ خوراک کے حصول کے چونکہ انسان کو بذات خود کوشش کرنا پڑتی ہے اس طرح اس کا جسم اورذہن لازمی طور پر متحرک رہتے ہیںجس کی وجہ وہ جسمانی اور ذہنی بیماریوں سے دور رہتاہے۔
مثل مشہور ہے "رزق حلال کا حصول عین عبادت ہے"
گویا جس وقت بندہ رزق حلال کی جستجو کر رہا ہوتا ہے در حقیقت وہ اپنے رب کی رضا کے حصول میں لگا ہوتا ہے۔
اسی طرح جب بندہ بے سوچے سمجھے ہر طرح کا مال بغیر حلال وحرام کی تمیز کے اکھٹا کرنے میں لگا ہوتا ہے تو اس کے پیش نظر سوائے مال اکٹھا کرنے کے کچھ اور نہیں ہوتا اور اس دوران بعض اوقت تووہ اخلاقیات اور معاشرتی قدروں کو بھی پس پشت ڈال دیتا ہے۔ ایسے رزق کا حصول اسے ہمہ قسم کی جسمانی وروحانی بیماریوں میں ملوث کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ اور انسان یہ راستہ چونکہ خود اپنی مرضی سے اختیار کرتا ہے لہذا اس کاعلاج اسے خود ہی ڈھونڈنا پڑتا ہے۔
رزق حلال کی جستجو(جس میں اللہ کی رضا کا حصول بھی مقصود ہو) انسان کو اپنے رب کے قریب کردیتی ہے اور وہ اس کی برکت سے جسمانی وروحانی امراض سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس کے بالکل برعکس حرام اور ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ غذا نہ صرف انسان کو اپنے رب سے دور کرتی ہے بلکہ اسے مختلف جسمانی و روحانی امراض کا شکار بنادیتی ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رزق حلال وافر مقدار میں عطا فرمائے۔ جملہ قسم کی روحانی وجسمانی امراض سے محفوظ رکھے ۔ اور اپنی رضا بھی عطا فرمائے۔ آمین۔

11/15/2013

جسما نی غذا کے روح پر اثرات

0 تبصرے
جیساکہ ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کے جسم کو مٹی سے تخلیق کیا گیا اور اسکی غذا بھی وہی اشیا قرار پائیں جو کہ زمین سے نکلتی ہیں۔
لیکن اس غذا کے حصول کے لیے بھی قواعد وضوابط مقرر کردیے گئے جو کہ معروف ہیں یعنی جائز طریقے سے غذا کا حصول ۔ اگرانسان اپنی غذا کے حصول کے لیے جائز اور درست ذرائع اختیارکرتا ہے تو اسےاس دنیا میں بھی اور اللہ کے ہاں بھی اچھا نیک اور بہتر انسان مانا جاتا ہے اس کے بر عکس اگر خوراک کے حصول کے ذرائع غلط اور نا پسندیدہ ہوں تو ایسے شخص کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا اوریہ ایک عام فہم اور صاف بات ہے۔
اگر انسان جائز اور درست ذرائع سے رزق حاصل کرتا ہے تو اسکے جسم اور روح دونوں پراس رزق کی بدولت مثبت اثرات پڑتے ہیں اور روح روز بروز طاقت ور ہوتی چلی جاتی ہے۔اور ایسے انسان کے اخلاق و اطواردن بدن اچھے ہوتے چلے جاتے ہیں کیونکہ اس کا مقصد حیات اپنے رب کوراضی کرنا اور اس کی مخلوق کے آسانیاں پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ایسا انسان مخلوق اور خالق دونوں کے ہاں پسندیدہ ٹہرتا ہے کیونکہ جائز طریقے سے رزق حاصل کرنے میں وہ خالق کو بھی راضی رکھتا ہے اورمخلوق کے حقوق کی پامالی سے بھی بچتا ھے۔
اس کے برعکس ایسا انسان جس کے حصول رزق کے ذرائع ناپسندیدہ اور ناجائز ہوں تو ایسا انسان خالق اور مخلوق دونوں کی نظر میں گر جاتا ہے کیونکہ ایسا انسان رزق کے حصول میں نہ صرف خالق کے بنائے ہوئے اصول وضوابط کو توڑتا ہے بلکہ مخلوق کے حقوق کو بھی پامال کرتا ہے اور پھر دونوں کی نظر میں ناپسندیدہ ٹہرتا ہے اور وہ اس بات سے بھی بے پرواہ ہوتا ہے کہ اس کا رزق اس کے لیے اس جہان میں پریشانی اور آنے والے جہان میں پشیمانی کا باعث بنے گا۔
ایسے رزق سے جسم کے ساتھ ساتھ روح پر بھی بد اثرات پڑتے ہیں اورانسان کے اخلاق واطوار نہ صرف یہ کہ بگڑ جاتے ہیں بلکہ دوسروں کے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اور ایسا انسان صرف دولت اور رزق کے حصول ہی کو اپنا مطمح نظر بنا لیتا ہے۔ اس کے ہاں انسانی جذبات اور معاشرتی قدروں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔
جب غذا بری اور ناجائز ذرائع سے حصل کی گئی ہو تو اس بہتری کی امید رکھنا فضول ہے اسی کے کے لیے مثل مشہور ہے" کانٹے بیج کر اچھی فصل کی امید رکھنا"
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ جائز ذرائع سے رزق حلال عطا فرمائے اور اپنے سوا کسی اور کا محتاج ہر گز نہ بنائے۔ آمین

11/14/2013

جسم کی غذا او ر روح کی غذا

2 تبصرے
جب  اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو جبرائیل سے کہا کہ جائو زمین سے مٹی لے آئو پھر اسی مٹی کو گوندھ حضرت آدم علیہ السلام کا جسد خاکی تیار کیا گیا اور اس کے بعد اللہ رب العزت نے اپنے امر سے اس جسد خاکی میںروح پھونکی اور یوں اس انسان کی بنا رکھی گئی۔
چونکہ آدم کی تخلیق مٹی سے کی گئی اس لیے اس کی غذاوہ اشیاء قرار پائیں جو زمیں سے نکلتی ہیں۔ اناج ، غلہ، سبزیاں اور پھل سب کچھ زمین ہی میں پیدا ہوتا ہے ان سب کو انسان کے جسم کی غذا قرار دیا گیا۔ زمین سے ہی آدم کا جسم بنا یا گیا اور زمیں ہی سے اس کے جسم کی خوراک کا انتطام فرمایا گیا۔
رو ح جو کہ امر ربی ہے اور اس کی تخلیق اللہ کے براہ راست حکم سے ہوئی لہذا اس کی خوراک وہ اشیاء مقرر کی گئیں جن کا تعلق براہ راست اللہ رب العزت سے ہے۔ یعنی اللہ کی یاد اور اس کا ذکر۔
گویا کہ جسم کا تعلق زمین سے اور اس کی غذا بھی زمیں سے اسی طرح روح کا تعلق اللہ سے اور کی غذا کی فراہمی بھی اللہ سے یعنی اس کے ذکر سے۔
اب انسان کے ذمہ لگا دیا گیا کہ ان دونوں کی خوراک مہیا کرے اور ان نگہداشت درست طریقہ سے کرے۔ لیکن وائے کم قسمتی کی انسان ظاہر کے پیچھے لگ گیا اور باطن کو بھلا بیٹھا۔ جسم کی غذا مہیا کرنا تو اپنا فرض جان لیا لیکن روح کی غذا کی فراہمی سے غافل ہو گیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ جسم روز بروز طاقت ور ہوتا چلا گیا اور روح کمزور تر ہوتی چلی گئی جس کی وجہ سے انسان اپنے رب سے  دور ہو گیا۔
جسم کی غذا کی فراہمی کے لیے ضروری ہے ایسے ذرائع اختیار کیے جائیں جن سے رزق کے ساتہ ساتھ اپنے رب کی رضا بھی حاصل ہو اور وہ غذا روح کی تقویت کا باعث بھی بنے۔
اللہ ہمیں جسم کے لیے حلال غذا کی فراہمی کے ساتھ ساتھ روح کی غذا مہیا کرنے اور اسے طاقت ور بنانے کی تو فیق عطا فرمائے۔

11/12/2013

جسم اور روح کی ضرورتیں

0 تبصرے
جسم ظاہری شکل وصورت کا نام ہے۔ اور اس کی زیادہ تر ضرورتیں ظاہری اسباب سے پوری ہوتی ہیں۔ جیسا کہ بھوک، پیاس، شہوت وغیرہ یہ سب جسم کی ضرورتیں شمار کی جاتی ہیں اور بھوک کھانے سے، پیاس پینے اور شہوت اسکے دستیاب ذرائع سے پوری ہوتی ہے۔ اور جب بھوک ، پیاس اور شہوت پوری کرنے کے ذرائع دستیاب ہوں یا پھر بالکل نہ ہوں دونوں صورتوں میں انسان انسانیت کے جامے سے نکل جاتا ہے۔ ذرائع دستیاب ہونے کی صورت میں مہذب انداز میں درنگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور ذرائع دستیاب نہ ہونے کی صورت میں اپنی قوت اور طاقت کے حساب سے جانوروں کی خصلت اختیار کر لیتا ہے۔
انسان کا ظاہر اس کے باطن کا ترجمان ہوتا ہے۔ در حقیقت اگر روح سیر ہو اور اطاعت ربانی میں رچی بسی ہو تو اسکا ظاہر یعنی جسم روح کے تابع ہوجاتا ہے اور اس سے اعمال صالحہ ہی سر زد ہوتے ہیں اورظاہری بھوک ،پیاس اور شہوت اس پرغلبہ نہیں پاسکتے اور جب روح کمزور اوراطاعت ربانی سے  دور ہوتی ہے تو اس پر یہ ظاہری احوال غلبہ پالیتے ہیں اورانسان اعمال صالحہ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور اس سے اعمال سیئہ سرزد ہونے لگتے ہیں۔ 
روح امر ربی ہے جس کی وجہ یہ کائنات رواں دواں ہے اور یہ انسان کےباطن کا نام ہے۔ چونکہ یہ ایک پوشیدہ نظام ہے اس کی خوراک اور ذرائع حیات بھی پوشیدہ اور مخفی ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ اللہ نے انسان کی تربیت کے اپنے خاص بندے مبعوث فرمائے جو کہ روح کی گہرائیوں تک جھانک کر انسان کی پوشیدہ روحانی بیماریوں سے آگاہ ہوجاتے تھے انہی انفاس قدسیہ کے ذریعہ سے اللہ رب العزت نے روح کی خوراک اور اس کی صفائی کے طریقے ہمیں عطا فرمائے ہیں۔ روح کی پاکیزگی اور صفائی کے سب سے زیا دہ زور رزق حلال اور صد ق مقال یعنی سچ بولنے پر دیا گیا ہے۔ اور اس کی غذا اللہ کا ذکر قرار دیا گیاہے۔
ظاہری طور پر جسم اور روح کی ضرورتیں جدا گانہ ہیں لیکن اگر بغور مطالعہ و مشاہدہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جسم کی خوراک جتنی پاکیزہ،صاف ستھری اور حلال ہو گی روح کو اتنی ہی جلا ملے گی اور اسی طرح روح جتنی پاکیزہ اور رب کے خوف اور محبت کی خوگر ہو گی اتنی پاکیزہ اورحلال خوراک کی جستجو کرے گی۔ 
لہذا دونوں کی ضرورتوں کا انحصار ایک دوسرے پر ہے ایک ٹھیک ہے دوسرا بھی سیدھا ہوگا اور اگر ایک میں کجی آ گئی تو دوسرا اس سے متاءثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ اسی لیے اللہ والے روحانی بیماریوں سے بچنے کے پہلے ظاہری یعنی جسمانی بیماریوں یعنی بھوک، پیاس اور شہوت سے بچنے پر زور دیتے ہیں۔ جیسا کہ کم بولنا، کم کھانا اور کم سونا صوفی ازم کا ایک لازمی سبق ہے۔
اللہ سے دعا ہے ہمیں جسمانی اور روحانی ہر دو طرح کی بہتریں غذائوں سے نوازے اور ان میں بھر پور برکات عطافرمائے۔ آمین۔

11/11/2013

جسم اور روح کی بیماریاں

0 تبصرے
جب سے اللہ رب العزت نے انسان کو اس زمین پر اتارا ہےاورحضرت انسان نے اس کائنات کو زینت بخشی ہے اسے روز بروز نت نئی تکالیف، مشقتوں اور بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ ان تکالیف، مشقتوں اور بیماریوں سے نپٹنے کے لیے انسان مالک کی عطا کردہ عقل اور اس زمانے میں موجود وسائل کا بھرپور استعمال کرتا رہا ہے۔ یہ  تکالیف، مشقتیں اور بیماریاںحضرت انسان کو نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی طور پر متاءثر کرتی رہی ہیں۔
روح کی پیدائش اللہ کے حکم سے ہے اوریہ عام نگاہ سے مخفی بھی ہے اوراس کی بیماریاں بھی عام نگاہ سے پوشیدہ ہیں اس لیے اس کا علاج کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے اپنے خصوصی نمائندے بھیجے جو روح کی گہرائیوں تک جھانک لیتے اور اس کی پوشیدہ امراض کو سمجھ کر ان کا علاج فرماتے تھے۔
جبکہ جسم ظاہری ہے اور اس کو لگنے والی بیماریاں بھی ظاہری ہیں اور ان بیماریوں کی وجہ زیادہ تر انسان کی اپنی حرکات ہوتی ہیں اس لیے ان بیماریوں کو سمجھنے کے لیے اللہ نے انسان کو اتنی سمجھ بوجھ عطا فرمادی کہ وہ خود ان کا علاج کر سکے۔ 
اب چونکہ انسان کی تکمیل جسم اور روح کے ملاپ اور ان دونوں کی تندرستی پر منحصر ہے لہذا یہ اللہ رب العزت کا احسان عظیم ہے کہ آج کے دور میں اس نے ہمیں وہ تمام تر ذرائع و وسائل عطا فرما دیے ہیں کہ جن کی مدد سےہم اپنی روح اور جسم دونوں کو تند رست رکھتے ہوئے بھرپور زندگی بسر کر سکتے ہیں ۔
اب اللہ کی طرف سے براہ راست راہنمائی کا سلسلہ ظاہری طور پر منقطع نظر آتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج بھی اس کا کلام اور نبی آخرالزمان جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہمہ قسم کے علاج معالجہ(چاہے روح ہو یا جسم) میں اسی طرح ہماری راہنمائی کرتے ہیں جیسا کہ پہلے وقتوں میں ۔اور پھر روحانی وجسمانی دونوں شعبوں میں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےنائبین موجودہیں جو کہ اپنے اپنے شعبہ کےماہراستاد ہیں۔
اللہ ہمیں ان سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

11/09/2013

راہنمائی کے زرائع

0 تبصرے
اللہ اکبر
اللہ نے انسان کی راہنمائی کے لیے ایسے ذرائع اور وسائل استعمال فرمائے جن سے انسان واقف اور آشنا  تھا ۔ جس کی مثال ہابیل اورقابیل کے واقعہ ہے ۔ کہ کس طرح قابیل نے بھائی کو مار ڈالا اور پھر اس کی لاش چھپانے کا کوئی ذریعہ سمجھ نہ آیا تو اللہ نے کوے کے ذریعہ سے اسے زمین کھود کر اس میں مردہ دفن کرنا سکھایا۔ اس طرح قبر کھودنے اور مردہ کو دفن کرنے کا علم انسان نے ایک کوے سے سیکھا۔
اس سے دو باتیں سمجھ آتی ہیں
1۔ کہ انسان بغیر راہنمائی کے کچھ نہیں کرسکتا
2۔ علم سیکھنا چاہیے ظاہری طور پر وہ کسی کمتر سے کیوں نہ ہو
اسی طرح روحانیت بھی کسی فردواحد کی اجارہ داری نہیں اور نہ ہی یہ کسی خاص قوم، نسل یا قبیلے سے متعلق ہے
بلکہ اللہ رب العزت کی مہربانی ،عطا اور نبی علیہ الصلوۃوالسلام کی پیروی سے جس پر فضل ہو جائے وہ اس راہ پر قائم رہتا ہے۔  
یاد رہے کہ اس راستے میں بھی استاد کی ضرورت لازم ہے اور بغیر استاد کامل کے گمراہی کا اندیشہ ہے۔
استاد کامل کے لیے  صرف عالم ہی نہیں بلکہ علوم دینی و دنیاوی  پر عمل کے ساتھ ساتھ تجربہ کار ، ماہر امراض روحانیہ ، تشخیص کی مہارت رکھنا اور علاج معالجہ کی قابلیت ہونا ضروری ہے۔
اللہ ہم سب کی دستگیری فرمائے ۔ آمین


11/08/2013

پہلا حملہ اور اس کا روحانی علاج

1 تبصرے
اللہ اکبر کیا کیا احسان ہیں اس شان کریمی کے
دیکھیے جنت کا منظر ہے جناب آدم علیہ السلام اور حوا علیھا السلام  اللہ کی مہمانی کے مزے لے رہے ہیں کہ دشمن ازلی سے برداشت نہ ہو پایا ۔ اس نے دوستی اور خیر خواہی کا ڈھونگ رچا کر دونوں کو پھسلانا چاہا ۔ جناب حوا علیھا السلام اس کے خیر خواہی کے جذبہ سے متاثر ہوئیں اور اس نابکار کے کہنے میں آ کر دونوں جناب آدم علیہ السلام اور حوا علیھا السلام نے منع کردہ درخت کا پھل کھا لیا اور جنت سے نکال دیے گئے۔
یوں پہلا حملہ کامیاب ہوا لیکن اللہ اکبر کیا کیا احسان ہیں اس شان کریمی کے کہ اس نے اس کا ازالہ بھی بتا دیا اور معافی کے لیے ایک طریقہ کار کا تعیین کر کے آنے والی نسلوں کے لیےآسانی فرمادی۔
عرصہ تک گریہ وزاری کرنے کے بعدمعافی قبول ہوئی اور پھر مشیت الٰہیہ سے نسل انسانی کا آغاز ہوا
ازالہ و علاج از عطائے ربانی برائے معافی
" ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفر لنا وترحمنا لنکونن من الخٰسرین"
اور اس طرح جو روحانی بیماری پیدا ہوئی اس کا روحانی علاج بھی مرحمت ہوا۔
اللہ اکبر کیا کیا احسان ہیں اس شان کریمی کے کہ خود ہی راہنمائی فرماتےہیں۔

ابتدائیہ

0 تبصرے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ  رب العزت کا احسان عظیم ہے کہ اس نے حضرت انسان کو اپنے دست اقدس سے تخلیق فرمایا اور اسے ان تمام علوم سے بہرہ مند کیا جو اس کائنات میں اس کے ضروری تھے۔ اور پھر اس زمیں پر اپنا نائب مقرر کیا۔ 
حضرت انسان کی تخلیق کوئی معمولی کام نہیں تھابلکہ اس کی وجہ سے ابلیس کی تمام تر ریاضت ومحنت پر پانی پھر گیا۔
جس کی وجہ ابلیس روز اول سے انسان کا دشمن ٹہرا۔ شیطان نے اللہ کے سامنے دعوٰی کیا کہ وہ آخری سانسوں تک انسان کو گمراہ کرے گا لیکن میرے شان کریمی والے رب نے فرما دیا کہ جو بھی میری طرف لوٹ کر آئے گا اسے معاف کردوں گا۔ اب تخلیق آدم سے لے کر قیامت کی دیواروں تک یہ کشمکش لگی ہی رہنی ہے۔
اب تک انسان اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باعث نقصان اٹھاتا چلا آیا اس میں جسمانی و روحانی دونوں طرح کے نقصانات شامل ہیں۔ جسمانی نقصانات میں اس  کے طبعی اعمال کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہےجب کہ روحانی نقصانات میں انسان کی اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطان اپنےاثرات بھی ڈال دیتا ہے جس سے اس تکلیف ظاہری علاج معالجہ کے باوجود بڑھتی چلی جاتی ہے
اس بلاگ میں اسی ذیل میں گفتگو جاری رہے گی۔ 
ان شا ء اللہ
حافظ حکیم محمد سعید ایم۔ اے ، بی۔ایڈ