11/26/2013

امراض جسمانیہ وروحانیہ سے حفاظت

2 تبصرے
ہرانسان اپنے آپ کو ہمہ قسم کی جسمانی وروحانی تکالیف سے محفوظ رکھنا چاہتاہے۔
 بدن کی اندرونی وبیرونی حفاظت کے لیے وہ تمام قسم کے ذرائع استعمال کرتا ہے۔
جسم کی بیرونی حفاظت کے لیے وہ لباس، خوراک ،ادویات اور کاسمیٹک وغیرہ استعمال کرتا ہے جبکہ اندرونی حفاظت کے لیے صاف ستھری اور بہترین غذا، پھل وغیرہ استعمال کرتا ہےاور بوقت ضرورت ڈاکٹرز، سپیشلسٹس اور حکماء وغیرہ کی خدمات حاصل کرتا ہے اوراس ضمن میں اپنے بزرگوں کے تجربات سے بھی مستفید ہوتاہے اگرخدانخواستہ کسی معمولی مرض کا بھی اندیشہ ہو تو فوراً علاج کی فکر کرتاہے۔
اس کے برعکس روحانی امراض کے سلسلہ میں انسان انتہائی غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتا ہے جسکی وجہ سے بعض اوقات وہ گناہوں کے قعر مذلت میں جا گرتا اور اسے احساس تک نہیں ہوتا۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ حقیقی امراض روحانیہ کو امراض روحانیہ نہیں سمجھتا جبکہ بعض نہ سمجھ آنے والے امراض جسمانیہ یا پھر امراض روحانیہ کے عکس سے پیدا ہونے والے امراض کو امراض روحانیہ سمجھ بیٹھتا ہے اور ایسے لوگوں کے ہاتھ جا چڑھتا ہے جو کہ کہ خیال کو حقیقت کا روپ دکھانے کے ماہر ہوتے ہیں اور پھر اس کو طول دیکر مال بنانے کے ہنر میں یکتا ہوتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اول تو بندہ خود اپنا تجزیہ کرے کہ وہ کون سا ایسا عمل کرنے لگا ہے یا پھر کون سا ایسا عمل ہے جس کو ترک کرنے کے باعث اس کی کیفیات میں تبدیلی واقع ہوئی ہےاور مرض پیدا ہوا ہے۔ اور پھر اس کی تجدید کرے اگر کسی عمل کو کرنے سے تکلیف آئی ہے تو اس عمل کی تحقیق کرے کہ اس میں کیا خامی ہے جس کی وجہ سے نئی کیفیات پیدا ہوئی ہیں اور پھر اس خامی کو دور کرے۔ اسی طرح اگر کسی عمل کے ترک سے تکلیف آئی ہے تو اس کا ازالہ کرے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بدنی علاج کا بندوبست رکھے۔
اگر بندہ کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کر سکے تو پھر اللہ ہی اس کا حا فظ ہے۔ اگر کسی سے مشورہ کی ضرورت پیش آئے تو اول کوشش کرے کہ ایسا آدمی مل جائے جو اس راہ گذر سے گذر چکا ہو اور اس کے نشیب وفراز اور پیچ وخم سے بخوبی واقف ہو جیسا کا امراض بدنیہ میں ہم کسی سپیشلسٹ سے مشورہ ضروری خیال کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ وظائف پر بھروسہ کرنے سے کام  تو بن سکتا ہے مگر اس سے مزید پیچیدگی کا اندیشہ بھی ہے۔ لحاظہ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی ماہر امراض روحانیہ جو کہ قرآن وسنت کا عامل اور انہی کے مطابق علاج معالجہ کے فن پرعبور رکھتا ہو اسی سے مشور ہ کرے اور اگر ممکن ہو تو اسی سے علاج کروائے۔ 
جس طرح امراض جسمانیہ میں بندہ کا خود تگ ودو کرنا اور علاج معالجہ وپرہیز کا خیال رکھنا ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ امراض روحانیہ میں توجہ کی ضرورت ہے۔
فی زمانہ ماہرین نفسیات بھی اس طرح کے کام کرتے نظر آتے ہیں اگر یہی ماہرین اپنے فن کو قرآن وسنت کی روشنی سے صیقل کرلیں تو سونے پر سہاگہ ہو گا کیونکہ سابقہ ادوار کے تماتر ماہرین امراض روحانیہ اپنے اپنے دور ماہر نفسیات بھی ہوا کرتے تھے تاریخ اس کی شاہد ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام امراض روحانیہ وجسمانیہ سے محفوظ فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین بوجھک الکریم۔

2 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔